احمدآباد بوئنگ 787 حادثے میں بلیک باکس کی تاخیر اور فوٹو آپورچونٹی تنازع نے سوالات اٹھائے ہیں۔ کیا یہ حساسیت کا فقدان ہے؟ مکمل تفصیلات جانیں
احمدآباد بوئنگ 787 حادثہ
13 جون 2025 کو احمدآباد میں ایئر انڈیا کا بوئنگ 787 ڈریم لائنر طیارہ حادثے کا شکار ہوا، جو مہگنی ہاسٹل میں جا گرا، جہاں ڈاکٹرز رہائش پذیر تھے۔ اس حادثے نے نہ صرف قیمتی جانوں کا نقصان کیا بلکہ کئی سوالات بھی اٹھائے، خاص طور پر بلیک باکس کی تاخیر، حکومتی ردعمل، اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی سازشی نظریات کے حوالے سے۔ اس مضمون میں ہم احمدآباد بوئنگ 787 حادثہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے اور ان سوالات کا جائزہ لیں گے جو عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔
بلیک باکس کی تاخیر: کیا وجہ ہے؟
طیارے کا بلیک باکس، جو فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر پر مشتمل ہوتا ہے، حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بوئنگ 787 کے بلیک باکس طیارے کے پچھلے حصے (ٹیل) میں موجود ہوتا ہے۔ تاہم، حادثے کے 12 سے 14 گھنٹے گزر جانے کے باوجود، یعنی 14 جون 2025 کی صبح 10:30 بجے تک، بلیک باکس کو نکالنے کی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی تھی۔
سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے الزام لگایا کہ بلیک باکس کو جان بوجھ کر نہیں نکالا گیا تاکہ وزیراعظم نریندر مودی طیارے کے پچھلے حصے کے ساتھ تصویر کھنچوا سکیں۔ یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب تصاویر سامنے آئیں جن میں وزیراعظم اور شہری ہوابازی کے وزیر جیوترادیتیا سندھیا حادثے کی جگہ پر مختلف پوز میں تصاویر کھنچواتے نظر آئے۔
ایوی ایشن ماہرین کے مطابق، بلیک باکس کو نکالنے میں تاخیر حادثے کی جگہ کی پیچیدگی یا حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ تاہم، حکومتی ترجمان نے اس بارے میں کوئی واضح بیان جاری نہیں کیا، جس سے افواہوں کو تقویت ملی۔ این ڈی ٹی وی کے صحافی وشنو سوم نے رپورٹ کیا کہ بلیک باکس کی عدم بازیابی نے تحقیقات میں تاخیر کی، جو کہ ایک سنگین معاملہ ہے۔
فوٹو آپورچونٹی تنازع: کیا یہ مناسب تھا؟
حادثے کی جگہ پر لی گئی تصاویر نے ایک بڑا تنازع کھڑا کر دیا۔ ایک تصویر میں وزیراعظم مودی طیارے کے پچھلے حصے کے سامنے کھڑے ہیں، جب کہ فوٹوگرافر نے زمین پر لیٹ کر یہ تصویر لی، جس سے ایک ڈرامائی زاویہ بنایا گیا۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس موقع پر فوٹو آپورچونٹی زیادہ اہم تھی یا امدادی کام؟
مزید برآں، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے آئی ٹی سیل کی جانب سے جاری کردہ ویڈیوز میں ڈرامائی موسیقی شامل کی گئی، جو ایک شوکہانی منظر کے لیے نامناسب سمجھا گیا۔ صحافیوں اور عام شہریوں نے اسے حساسیت کا فقدان قرار دیا۔
سیاسی لیڈرز کے لیے حادثے کی جگہ کا دورہ کرنا معمول ہے، لیکن تصاویر اور ویڈیوز کی نوعیت نے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایسی تصاویر سیاسی فائدے کے لیے استعمال ہونے کا تاثر دیتی ہیں، جو عوامی اعتماد کو متزلزل کر سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر تنقید اور سازشی نظریات
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بی جے پی کے آئی ٹی سیل سے منسلک کچھ اکاؤنٹس نے حادثے کے حوالے سے غیرذمہ دارانہ تبصرے کیے، جن میں شامل ہیں
ایک صارف نے دعویٰ کیا کہ حادثے کا تعلق ترکی سے ہے، جو ایئر انڈیا کے طیاروں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور پاکستان کا حامی ہے۔
– ایک اور صارف نے حادثے کے واحد زندہ بچ جانے والے، وشحاس کمار، پر الزام لگایا کہ اس نے ایمرجنسی دروازہ کھول کر حادثے کو جنم دیا۔
کچھ صارفین نے دعویٰ کیا کہ طیارے میں وی آئی پیز موجود تھے اور حادثے میں “خاستانی ایز” کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
یہ سازشی نظریات بغیر ثبوت کے پھیلائے جا رہے ہیں۔ ایئر انڈیا کے طیاروں کی دیکھ بھال ایک سرکاری ایجنسی کرتی ہے جو وزارت شہری ہوابازی کے تحت کام کرتی ہے۔ ایکس پر پوسٹس کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی سے وابستہ کچھ اکاؤنٹس نے عوام کا دھیان اصل سوالات سے ہٹانے کی کوشش کی۔
حادثے کی انسانی کہانیاں
احمدآباد بوئنگ 787 حادثہ نے کئی دلخراش کہانیوں کو جنم دیا
وشحال کمار: سیٹ نمبر 11A پر بیٹھے وشحال کمار واحد شخص تھے جو معجزاتی طور پر بچ گئے۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ ایمرجنسی دروازہ کیسے کھلا یا وہ کیسے باہر گرے۔
کمال ساہ: ایک لڑکی، جو اس طیارے میں سوار تھی، اپنے بوائے فرینڈ کے لیے یادگار بن گئی، جو اسے یاد کرتے ہوئے رو رہا تھا۔
ارجن: ارجن کی بیوی کی آخری خواہش تھی کہ اس کی راکھ گجرات میں بہائی جائے۔ وہ اس خواہش کو پورا کرنے اس طیارے میں سوار ہوا اور حادثے کا شکار ہو گیا۔
بھومی: بھومی کی فلائٹ 10 منٹ کی تاخیر کی وجہ سے چھوٹ گئی، جس نے اس کی جان بچائی۔ اس کے والدین نے اسے معجزہ قرار دیا۔
یہ کہانیاں حادثے کے انسانی نقصان کو اجاگر کرتی ہیں اور حکومتی ردعمل پر سوالات اٹھاتی ہیں۔
حکومتی ردعمل اور سوالات
وزیر داخلہ نے کہا کہ “حادثات کو ٹالا نہیں جا سکتا،” جو ایک غیر حساس بیان سمجھا گیا۔ صحافیوں نے سوال اٹھایا کہ کیا بوئنگ 787 کے ڈیزائن میں خامیاں تھیں، جیسا کہ ایک وسل بلوئر نے دعویٰ کیا تھا؟ کیا ٹاٹا کے ایئر انڈیا کو سنبھالنے کے بعد دیکھ بھال میں کمی آئی؟
اہم سوالات
بلیک باکس کو نکالنے میں تاخیر کیوں ہوئی؟
کیا فوٹو آپورچونٹی زیادہ اہم تھی یا امدادی کام؟
سوشل میڈیا پر افواہوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟
ایئر انڈیا کی دیکھ بھال کے معیار پر سوال کیوں نہیں اٹھائے جا رہے؟
سوال پوچھنے کا وقت کب ہے؟
احمدآباد بوئنگ 787 حادثہ نے نہ صرف تکنیکی اور انتظامی ناکامیوں کو بے نقاب کیا بلکہ حکومتی ترجیحات اور سوشل میڈیا کی غیر ذمہ داری کو بھی عیاں کیا۔ جب عوام سوال اٹھاتی ہے تو اسے “غدار” کہا جاتا ہے، لیکن اگر سوال نہ پوچھے گئے تو ایسی حادثات کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔
ہمارا پیغام واضح ہے: اپنی حکومت سے سوال پوچھیں۔ بلیک باکس کی تاخیر، فوٹو آپورچونٹی تنازع، اور سازشی نظریات پر خاموشی ناقابل قبول ہے۔ عوام کا حق ہے کہ وہ جانے کہ اس حادثے کی اصل وجہ کیا تھی اور اسے کیسے روکا جا سکتا ہے۔