احمد آباد طیارہ حادثہ: بھگوت گیتا کا چمتکار یا میڈیا کی شرمناک کوریج؟

احمد آباد طیارہ حادثہ: باغیشور دھام کی پیشن گوئی یا دھوکہ؟

احمد آباد طیارہ حادثہ میں 241 افراد کی ہلاکت کے باوجود میڈیا بھگوت گیتا کے ملنے کو ‘چمتکار’ بتا رہا ہے۔ کیا یہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے؟ پڑھیے مکمل تجزیہ۔

احمد آباد طیارہ حادثہ: کیا ہوا؟

12 جون 2025 کو احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے لندن گیٹوک ایئرپورٹ جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز AI-171 ٹیک آف کے چند سیکنڈز بعد ہی رہائشی علاقے میگھانی نگر میں گر کر تباہ ہو گئی۔ اس بوئنگ 787 ڈریم لائنر طیارے میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سمیت کل 242 افراد سوار تھے، جن میں سے صرف ایک مسافر، 38 سالہ رمیش، معجزانہ طور پر زندہ بچا۔ باقی تمام افراد ہلاک ہو گئے، جن میں 169 بھارتی، 53 برطانوی، 7 پرتگالی، اور ایک کینیڈین شہری شامل تھے۔ طیارے کے گرنے سے ایک ہاسٹل کی عمارت بھی تباہ ہوئی، جس میں مقامی اطلاعات کے مطابق 12 افراد ہلاک ہوئے۔

احمد آباد طیارہ حادثہ: بھگوت گیتا کا چمتکار یا میڈیا کی شرمناک کوریج؟
احمد آباد طیارہ حادثہ: بھگوت گیتا کا چمتکار یا میڈیا کی شرمناک کوریج؟

حادثے کے فوراً بعد پائلٹ نے ‘مے ڈے’ کال دی، جو کہ کسی سنگین تکنیکی خرابی کی نشاندہی کرتی ہے۔ فلائٹ ریڈار کے مطابق، طیارہ صرف 625 فٹ کی بلندی تک پہنچ سکا تھا کہ رابطہ منقطع ہو گیا۔ ابتدائی رپورٹس میں بتایا گیا کہ طیارہ ایک درخت سے ٹکرایا یا پرندوں کے ٹکرانے (bird strike) کی وجہ سے دونوں انجن ناکارہ ہو گئے۔ تاہم، حتمی وجوہات جاننے کے لیے بلیک باکس کی تحقیقات جاری ہیں۔

میڈیا کی شرمناک کوریج: بھگوت گیتا کو چمتکار بنانا

اس المناک حادثے کے بعد جہاں عوام اور متاثرین کے خاندان صدمے میں ہیں، بھارتی میڈیا کا ایک بڑا حصہ اصل مسائل پر بات کرنے کے بجائے بھگوت گیتا کے ملنے کو ‘چمتکار’ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ ایک معروف نیوز چینل کی خاتون صحافی نے دعویٰ کیا کہ جہاں طیارہ گر کر تباہ ہوا اور ہر چیز جل کر راکھ ہو گئی، وہاں سے بھگوت گیتا کی ایک کاپی سلامت مل گئی۔ اسے ‘معجزہ’ قرار دیتے ہوئے رپورٹ کیا گیا کہ یہ کتاب شاید کسی مسافر کی تھی، لیکن اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ یہ کتاب واقعی طیارے سے گری تھی یا نہیں۔ 

احمد آباد طیارہ حادثہ: بھگوت گیتا کا چمتکار یا میڈیا کی شرمناک کوریج؟
احمد آباد طیارہ حادثہ: بھگوت گیتا کا چمتکار یا میڈیا کی شرمناک کوریج؟

یہ رپورٹنگ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ عوام کی توجہ حادثے کی اصل وجوہات سے ہٹانے کی کوشش بھی دکھائی دیتی ہے۔ کیا ایک کتاب کا سلامت رہ جانا اس سانحے سے بڑا ہے، جس میں 241 جانیں ضائع ہو گئیں؟ میڈیا کا یہ رویہ اس وقت اور بھی شرمناک لگتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسی صحافی نے ماضی میں بھی متنازع رپورٹس پیش کی ہیں، جیسے کہ گالوان وادی تنازع میں فوج کو ذمہ دار ٹھہرانا یا 2000 کے نوٹ میں ‘چپ’ ڈھونڈنا۔

حقیقی چمتکار کیا ہوتا ہے؟

چمتکار کی تعریف اگر مذہبی نقطہ نظر سے بھی کی جائے تو یہ تب ہوتا جب اس حادثے میں 242 افراد یا کم از کم ان میں سے ایک بڑی تعداد زندہ بچ جاتی۔ بھگوت گیتا ایک عظیم روحانی کتاب ہے، جو انسان کو زندگی، فرض، اور کردار کے بارے میں رہنمائی کرتی ہے۔ لیکن اسے ایک تباہ شدہ طیارے کے ملبے سے ملنے والی چیز کے طور پر پیش کرنا اور اسے ‘چمتکار’ کہنا نہ صرف اس کتاب کی عظمت کو کم کرتا ہے بلکہ متاثرین کے خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

حقیقی چمتکار تب ہوتا جب ایئر انڈیا کی پرواز کے مسافر محفوظ رہتے، یا کم از کم حادثے کی وجوہات کو فوری طور پر شناخت کر کے مستقبل میں ایسی تباہی کو روکا جاتا۔ لیکن میڈیا اس کے بجائے غیر ضروری مذہبی رنگ دے کر عوام کو گمراہ کر رہا ہے۔

ایئر انڈیا اور ٹاٹا گروپ کی ذمہ داری پر سوالات

ایئر انڈیا، جو اب ٹاٹا گروپ کے زیر انتظام ہے، کو حالیہ برسوں میں متعدد تکنیکی مسائل اور انتظامی شکایات کا سامنا رہا ہے۔ اس حادثے نے ایک بار پھر ایئر انڈیا کی حفاظتی معیارات اور طیاروں کی دیکھ بھال پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، بوئنگ 787 ڈریم لائنر ایک جدید طیارہ ہے، لیکن ماضی میں اسے بیٹری کے مسائل کی وجہ سے گراؤنڈ کیا گیا تھا۔ کیا اس طیارے کی تکنیکی جانچ پڑتال مناسب طریقے سے کی گئی تھی؟ کیا ایئر انڈیا نے اپنے مسافروں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے تھے؟ 

ٹاٹا گروپ نے ایئر انڈیا کو سنبھالنے کے بعد اس کی ساکھ بہتر کرنے کے وعدے کیے تھے، لیکن اس حادثے نے ان وعدوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ عوام کو حق ہے کہ وہ جانے کہ اس حادثے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور اسے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

باغیشور دھام کا تنازع: پیشن گوئی یا دھوکہ؟

اس حادثے کے بعد باغیشور دھام کے ذریعہ ایک اور تنازع کھڑا ہوا۔ خود کو روحانی پیشوا کہنے والے دھیرندر شاستری نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بڑی تباہیوں کی پیشن گوئی کر سکتے ہیں۔ لیکن جب بالاسور ٹرین حادثہ ہوا یا اب یہ طیارہ حادثہ پیش آیا، تو ان کی طرف سے کوئی پیشن گوئی سامنے نہیں آئی۔ اس وقت جب بھارت صدمے سے گزر رہا ہے، یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ دھیرندر شاستری آسٹریلیا میں ‘مزے اڑا رہے ہیں’۔ 

احمد آباد طیارہ حادثہ: باغیشور دھام کی پیشن گوئی یا دھوکہ؟
احمد آباد طیارہ حادثہ: باغیشور دھام کی پیشن گوئی یا دھوکہ؟

دھیرندر شاستری کے ماضی کے بیانات بھی تنازعات کا باعث رہے ہیں، جیسے کہ ان کا یہ کہنا کہ جو شخص کبھ میں نہیں جاتا وہ ‘غدار’ ہے۔ کیا ایسی باتیں عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش نہیں ہیں؟ عوام کو چاہیے کہ وہ ایسے دعوؤں پر یقین کرنے سے پہلے حقائق کی جانچ پڑتال کریں۔

حکومتی بیانات اور ذمہ داری سے فرار

حادثے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور تعزیت کا اظہار کیا۔ لیکن امت شاہ کا یہ بیان کہ ‘حادثات کو روکا نہیں جا سکتا’ عوام میں غم و غصے کا باعث بنا۔ کیا یہ بیان حکومتی ناکامی کو چھپانے کی کوشش نہیں؟ اگر حادثات ناگزیر ہیں، تو پھر ایوی ایشن سیفٹی کے معیارات اور ریگولیٹری اداروں کا کیا مقصد ہے؟ 

وزیر اعظم مودی کی تصاویر، جو حادثے کے مقام پر کھنچوائی گئیں، پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کیا یہ تصاویر صرف میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے تھیں، یا واقعی متاثرین کی مدد کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

میڈیا اور سیاست کا کھیل

احمد آباد طیارہ حادثہ ایک قومی المیہ ہے، لیکن اسے مذہبی رنگ دے کر یا غیر ضروری تنازعات کھڑے کر کے اصل مسائل سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔ بھگوت گیتا کے ملنے کو ‘چمتکار’ کہنا یا باغیشور دھام جیسے متنازع کرداروں کو اہمیت دینا اس سانحے کے متاثرین کے ساتھ ناانصافی ہے۔ میڈیا اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ایئر انڈیا کی ناکامیوں، تکنیکی خرابیوں، اور حفاظتی معیارات پر توجہ دیں، نہ کہ عوام کے جذبات سے کھیل کر انہیں گمراہ کریں۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ اس حادثے کی شفاف تحقیقات کی جائیں، ذمہ داروں کا تعین کیا جائے، اور مستقبل میں ایسی تباہی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔ عوام کو حق ہے کہ وہ سچ جانے، نہ کہ مذہبی پروپیگنڈے کا شکار بنے۔

Read More 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *