Site icon Urdu India Today

امت شاہ کا متنازعہ بیان 2025: کیا انگریزی بولنے والوں کو واقعی شرم آنی چاہیے؟

امت شاہ کا متنازعہ بیان 2025: “انگریزی بولنے والوں کو شرم آئے گی” نے سیاسی تنازعہ کھڑا کر دیا۔ کیا ہندوستانی زبانوں کو فروغ دینے کے لیے انگریزی کی توہین ضروری ہے؟ اس رپورٹ میں تفصیلی جائزہ لیں۔

امت شاہ کا متنازعہ بیان 2025: کیا ہے اصل تنازعہ؟

حال ہی میں نئی دہلی میں سابق آئی اے ایس افسر آشوتوش اگنی ہوتری کی کتاب “میں بوند سمندر ہوں” کے اجرا کے موقع پر مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کا بیان نے ایک نئے تنازعے کو جنم دیا۔ انہوں نے کہا کہ “اس ملک میں انگریزی بولنے والوں کو جلد شرم آئے گی، ایسا معاشرہ بنانے کا وقت قریب ہے۔” یہ بیان ہندوستانی زبانوں کے فروغ اور انگریزی کی حیثیت پر ایک بڑی بحث کا باعث بن گیا ہے۔ شاہ نے مزید کہا کہ ہندوستان کی ثقافت، تاریخ اور مذہب کو سمجھنے کے لیے کوئی غیر ملکی زبان کافی نہیں ہو سکتی۔ ان کے مطابق، صرف ہندوستانی زبانوں کے ذریعے ہی مکمل ہندوستانی شناخت کی عکاسی ممکن ہے۔

امت شاہ کا متنازعہ بیان 2025: کیا انگریزی بولنے والوں کو واقعی شرم آنی چاہیے؟

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستانی زبانوں کو عزت دینے کے لیے انگریزی کی توہین ضروری ہے؟ امت شاہ کا یہ بیان نہ صرف سیاسی حلقوں بلکہ سماجی اور تعلیمی شعبوں میں بھی زیر بحث ہے۔

بی جے پی کی زبانوں پر سیاست

بی جے پی کے پروپیگنڈے کا ایک اہم حصہ یہ رہا ہے کہ وہ ایک طبقے یا فکر کو نیچا دکھا کر دوسرے کو بلند کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ چاہے وہ مذہبی خطوط پر ہو یا لسانی بنیادوں پر، یہ حکمت عملی بارہا دیکھی گئی ہے۔ امت شاہ کا بیان اسی طرز کی ایک مثال ہے۔ انہوں نے انگریزی بولنے والوں کو شرمندہ کرنے کی بات کرکے ایک ایسی بحث چھیڑ دی جو ہندوستانی سماج کو تقسیم کر سکتی ہے۔

بی جے پی کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ یہ بیان دراصل اپوزیشن کے اس رویے کے خلاف تھا جو وزیراعظم نریندر مودی کی انگریزی پر طنز کرتی ہے۔ لیکن یہ دلیل کمزور لگتی ہے کیونکہ مودی کی انگریزی سے زیادہ ان کے فیصلوں اور پالیسیوں پر تنقید ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ہندوستان کو “ٹیرف کنگ” کہا یا گالوان وادی میں چین کے حملے پر مودی کی خاموشی پر تنقید ہوئی، تو اس کا تعلق انگریزی سے نہیں بلکہ سیاسی فیصلوں سے تھا۔

انگریزی کی اہمیت اور ہندوستانی زبانوں کا تقدس

انگریزی آج ایک عالمی زبان ہے جو ہندوستان کے لیے ایک اثاثہ ہے۔ عالمی معیشت میں ہندوستان کی ترقی، خاص طور پر آئی ٹی اور بی پی او سیکٹرز، انگریزی کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ آئی ٹی انڈسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس میں انگریزی زبان کی مہارت ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

دوسری طرف، ہندوستانی زبانوں جیسے ہندی، تامل، بنگالی، مراٹھی اور دیگر کا اپنا تقدس اور ثقافتی اہمیت ہے۔ یہ زبانیں ہماری شناخت کا حصہ ہیں۔ لیکن کیا انگریزی کی توہین کرکے ان زبانوں کی عزت بڑھائی جا سکتی ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ زبانوں کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی پالیسیوں، ترجمے کے پروگراموں اور ثقافتی تقریبات کی ضرورت ہے، نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے کی۔

بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی: ایک طبقے کی توہین سے دوسرے کا فروغ؟

بی جے پی کی سیاست میں ایک واضح رجحان دیکھا گیا ہے کہ وہ ایک طبقے کو نیچا دکھا کر دوسرے کو بلند کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ امت شاہ کا بیان اسی حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے۔ مثال کے طور پر
مذہبی تنازعات: ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مسلم یا سکھ برادری کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
نظریاتی تقسیم: دائیں بازو کے نظریات کو فروغ دینے کے لیے بائیں بازو یا لبرل سوچ کی توہین کی جاتی ہے۔
لسانی سیاست: ہندی یا دیگر ہندوستانی زبانوں کو فروغ دینے کے لیے انگریزی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ حکمت عملی وقتی طور پر ووٹ تو دلا سکتی ہے، لیکن طویل مدت میں یہ سماج کو تقسیم کرتی ہے۔ ایک سماجی تجزیہ کار کے مطابق اس طرح کی سیاست سے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے اور نفرت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

عالمی تناظر میں انگریزی کی ضرورت

ہندوستان ایک عالمی طاقت بننے کی راہ پر ہے۔ اس سفر میں انگریزی زبان ایک پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ چاہے وہ عالمی تجارت ہو، سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا سفارتی تعلقات، انگریزی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر، جرمنی اور چین جیسے ممالک میں انگریزی کی کم مہارت کی وجہ سے بعض اوقات عالمی مواقع سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہندوستان کے کال سینٹرز اور بی پی او انڈسٹری میں لاکھوں نوجوان ملازمت کرتے ہیں جو انگریزی کی بدولت عالمی معیشت کا حصہ ہیں۔ اگر انگریزی بولنے والوں کو “شرم” دلانے کی بات کی جائے گی، تو کیا یہ ان نوجوانوں کی محنت اور صلاحیتوں کی توہین نہیں؟

امت شاہ کا متنازعہ بیان 2025: سماجی اثر

امت شاہ کا بیان سماجی سطح پر ایک خطرناک پیغام دے سکتا ہے۔ اگر انگریزی بولنے والوں کو شرمندہ کرنے کی بات کی جائے گی، تو کیا والدین اپنے بچوں کو انگریزی پڑھانا بند کر دیں گے؟ کیا ہندوستان کے غریب اور متوسط طبقے کے والدین، جو اپنے بچوں کو انگریزی سیکھنے کے لیے کنونٹ اسکولوں میں بھیجتے ہیں، اپنے خواب ترک کر دیں گے؟

انگریزی زبان عالمی ادب، سائنس اور ٹیکنالوجی تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو ہندی یا دیگر ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ شدہ نہیں ہیں۔ انگریزی سیکھنے سے طلبہ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اور وہ عالمی سطح پر مقابلہ کر سکتے ہیں۔

زبانوں کو جوڑنے کی ضرورت

امت شاہ کا بیان ایک ایسی بحث کو جنم دیتا ہے جو ہندوستان جیسے متنوع ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ زبانوں کو فروغ دینے کے لیے ایک مثبت نقطہ نظر کی ضرورت ہے، نہ کہ ایک دوسرے کی توہین کی۔ ہندوستانی زبانوں کو مضبوط کرنے کے لیے تعلیمی اصلاحات، ترجمے کے پروگرام، اور ثقافتی تقریبات کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے ملک کی طاقت اس کی تنوع میں ہے۔ ہندی، تامل، بنگالی، مراٹھی، اور انگریزی سب کو مل کر ہندوستان کی شناخت کو مضبوط کرنا چاہیے۔ امت شاہ کا بیان ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہمیں ایک دوسرے کے خلاف لڑنا ہے یا مل کر ترقی کرنی ہے۔

Read More 

Exit mobile version