ایران اسرائیل تنازع 2025: ایران اسرائیل تنازع نے عالمی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کیا ایران نے واقعی اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچایا یا یہ محض پروپیگنڈا ہے؟ اس تنازع کی حقیقت، نقصانات، اور جوہری تنصیبات پر حملوں کے ممکنہ نتائج کے بارے میں تفصیلی جائزہ۔
ایران اسرائیل تنازع 2025 کی ابتدا
ایران اسرائیل تنازع حالیہ دنوں میں عالمی میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ ایران کے مبینہ حملوں سے اسرائیل میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایران نے اسرائیل کے شہر تل ابیب اور بیرشبعہ میں اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں سے ان حملوں کو ناکام بنا رہا ہے۔ اس تنازع میں پروپیگنڈا اور حقائق کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
اسرائیل کو کتنا نقصان پہنچا؟
ایران کے حملوں کے بعد میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کے شہروں، خاص طور پر تل ابیب اور بیرشبعہ کو نقصان پہنچا ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق، بیرشبعہ میں مائیکروسافٹ کے دفتر کو ایران کے حملوں میں تباہ کر دیا گیا۔ تاہم، اسرائیل کی جانب سے ان نقصانات کی تصدیق نہیں کی گئی۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان کے دفاعی نظام، جیسے آئرن ڈوم، نے زیادہ تر حملوں کو ناکام بنا دیا۔
واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایران نے 13 جون کے حملوں میں 150 سے زائد میزائل داغے، لیکن بعد کے دنوں میں یہ تعداد کم ہو کر صرف 10 میزائلوں تک رہ گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے میزائل ذخیرے محدود ہیں، اور وہ طویل جنگ کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف، اسرائیل کو ان حملوں سے بچاؤ کے لیے روزانہ 285 ملین ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ اگر امریکہ نے نئی فوجی امداد فراہم نہ کی تو اسرائیل کے لیے یہ اخراجات ناقابل برداشت ہو سکتے ہیں۔
جوہری تنصیبات پر حملوں کا خطرہ
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ وہ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کر سکتے ہیں۔ روس کی ایٹمی توانائی کارپوریشن کے سربراہ الیکسی لیخاچیف نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران کے بشہر جوہری پلانٹ پر حملہ کیا گیا تو اس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔ 1986 میں چیرنوبل جوہری حادثے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کا حملہ نہ صرف انسانوں بلکہ ماحول، جانوروں، اور پودوں کے لیے بھی خطرناک ہوگا۔
چیرنوبل حادثے میں ری ایکٹر کے پھٹنے سے 5% تابکار مواد ماحول میں پھیل گیا تھا، جس نے یوکرین، روس، اور بیلاروس سمیت یورپ کے کئی علاقوں کو متاثر کیا۔ ہزاروں افراد کو تھائرائیڈ کینسر جیسے امراض لاحق ہوئے، اور ایک شہر خالی ہو کر کھنڈر بن گیا۔ روس نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے ماہرین کو ایران کے جوہری پلانٹ سے نہیں ہٹائے گا، جو اسرائیل کے لیے ایک چیلنج ہے۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے سی این این کو بتایا کہ ایران نے 60% افزودہ یورینیم تیار کیا، لیکن یہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ضوابط کے مطابق ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، اور اسے حملوں کا جواز بنانا درست نہیں۔
ایران اسرائیل تنازع 2025: عالمی ردعمل اور سفارتی کوششیں
ایران اسرائیل تنازع پر عالمی طاقتوں کا ردعمل ملتا جلتا ہے۔ روس اور چین نے ایران کے جوہری پروگرام پر حملوں کی مخالفت کی ہے، جبکہ امریکہ اور یورپ اس تنازع کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 20 جون کو ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی برطانیہ، فرانس، اور جرمنی کے وزرائے خارجہ سے جنیوا میں ملاقات کریں گے۔ تاہم، اس ملاقات میں امریکہ یا اسرائیل کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہوگا۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ اگلے دو ہفتوں میں سفارتی حل تلاش کرنے کی ایک “کھڑکی” موجود ہے۔ دوسری طرف، فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے رفاہل لڑاکا طیاروں کی تشہیر کی، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یورپ اس تنازع میں اپنے معاشی مفادات کو بھی دیکھ رہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے دو ہفتوں کی ڈیڈ لائن دی ہے، لیکن امریکی میڈیا میں ان کی تنقید ہو رہی ہے کہ وہ فیصلہ کرنے میں تاخیر کر رہے ہیں۔ امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ نیتن یاہو امریکہ کے صدر نہیں ہیں، اور اسرائیل کی معاشی کمزوری کو دیکھتے ہوئے اسے امریکی حمایت کے بغیر جنگ جاری رکھنا مشکل ہوگا۔
ایران اسرائیل تنازع میں پروپیگنڈا کا کردار
ایران اسرائیل تنازع میں پروپیگنڈا کا بڑا کردار ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران کے اہم رہنما علی شمخانی کو ہلاک کر دیا گیا، جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ وہ زخمی ہیں۔ اسی طرح، اسرائیل پر ایران کے حملوں سے ہونے والے نقصانات کی تصاویر اور تفصیلات کو دبایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے ٹی وی چینلز کو مبینہ طور پر ہیک کیا گیا تاکہ ایرانی عوام کو بغاوت کے لیے اکسایا جائے۔
دوسری طرف، ایران میں اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے جا رہے ہیں، اور 600 سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم، دونوں ممالک میں نقصانات کی اصل تصویر واضح نہیں۔ یہ تنازع پروپیگنڈا کی جنگ بن چکا ہے، جہاں دونوں فریقین ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔
ایران اسرائیل تنازع: آگے کیا ہوگا؟
ایران اسرائیل تنازع ایک پیچیدہ اور خطرناک صورتحال بن چکا ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران کے جوہری پلانٹس پر حملہ کیا تو اس کے نتائج پورے خطے کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ سفارتی کوششیں جاری ہیں، لیکن پروپیگنڈا اور متضاد اطلاعات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
امریکہ، روس، اور یورپ کے کردار سے یہ واضح ہے کہ کوئی بھی فریق اس تنازع کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اگرچہ ٹرمپ نے دو ہفتوں کی ڈیڈ لائن دی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ اس مدت میں کیا بدل جائے گا۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس تنازع کو سفارتی طور پر حل کرنے کی کوشش کرے، ورنہ اس کے نتائج ناقابل تلافی ہو سکتے ہیں۔