بہار ووٹر لسٹ تنازعہ پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے شہریت کے معاملے پر سوال اٹھایا۔ یہ وزارت داخلہ کا دائرہ ہے۔ خصوصی انتخابی فہرست کی نظرثانی پر تنقید اور سیاسی ہلچل۔
بہار ووٹر لسٹ تنازعہ کیا ہے؟
بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے خصوصی انتخابی فہرست کی نظرثانی (Special Intensive Revision – SIR) نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ عمل، جو غیر قانونی تارکین وطن کو ووٹر لسٹ سے ہٹانے کے لیے شروع کیا گیا، اب سپریم کورٹ کے سوالات کی زد میں ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ وہ شہریت کے معاملے میں کیوں مداخلت کر رہا ہے، جو کہ وزارت داخلہ کا دائرہ ہے۔ اس تنازعہ نے بہار میں سیاسی ہلچل کو جنم دیا ہے، خاص طور پر جب کہ ری اسٹیٹ اسمبلی انتخابات قریب ہیں۔
سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن سے سوال
سپریم کورٹ نے جمعرات کو بہار ووٹر لسٹ تنازعہ پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن سے سخت سوالات کیے۔ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جویمالیا باغچی پر مشتمل بنچ نے کہا کہ انتخابی فہرست کی خصوصی نظرثانی میں شہریت کی جانچ پڑتال کا معاملہ وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ عدالت نے پوچھا
“شہریت کا معاملہ الیکشن کمیشن کیوں دیکھ رہا ہے؟ یہ وزارت داخلہ کا کام ہے۔”

عدالت نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ یہ عمل انتخابات سے کچھ ہی مہینوں پہلے کیوں شروع کیا گیا۔ بنچ نے کہا کہ اگر شہریت کی جانچ پڑتال ضروری تھی تو اسے پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ وہ اس عمل کے وقت اور طریقہ کار پر وضاحت پیش کرے۔
خصوصی انتخابی فہرست کی نظرثانی کیوں؟
الیکشن کمیشن نے بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کا آغاز غیر قانونی تارکین وطن، جیسے کہ نیپال، بنگلہ دیش، اور میانمار سے آنے والوں کو ووٹر لسٹಸٹیلسٹریٹس فہرست سے ہٹانے کے لیے کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق، یہ عمل آئین کے آرٹیکل 326 کے تحت ووٹنگ کے اہلیت کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے، جو شہریت کو ووٹنگ کا بنیادی شرط قرار دیتا ہے۔
تاہم، سپریم کورٹ نے اس عمل کے وقت پر سوال اٹھایا اور کہا کہ یہ عمل انتخابات سے الگ ہونا چاہیے تھا تاکہ اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔
شہریت کا معاملہ اور وزارت داخلہ کا کردار
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس اقدام پر سوال اٹھایا کہ وہ شہریت کی جانچ کے لیے 11 دستاویزات کی فہرست میں آدھار کو شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ شہریت کا تعین ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور یہ وزارت داخلہ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔
بہار ووٹر لسٹ تنازعہ نے ایک اہم سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن اپنے دائرہ اختیار سے باہر جا رہا ہے؟ وزارت داخلہ کے مطابق، غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی ان کا کام ہے، نہ کہ الیکشن کمیشن کا۔
سیاسی تنازعات اور انتخابی تیاریاں
بہار میں بہار ووٹر لسٹ تنازعہ نے سیاسی جماعتوں کے درمیان تناؤ کو بڑھا دیا ہے۔ کچھ جماعتیں اسے سیاسی طور پر ایک مخصوص ایجنڈے سے جوڑ رہی ہیں، جبکہ الیکشن کمیشن اسے ایک معمول کا انتظامی عمل قرار دیتا ہے۔ بہار کے آئندہ اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کے دوران اس تنازعہ نے سیاسی ماحول کو مزید گرم کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کی مکمل شرکت کو یقینی بنایا جا رہا ہے، اور اس کے لیے 78,000 بوتھ لیول افسران (BLOs) اور اضافی 20,000 نئے افسران تعینات کیے جا رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا موقف
الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں کہا
“ہندوستان کا آئین سب سے بالاتر ہے۔ تمام شہری، سیاسی جماعتیں، اور الیکشن کمیشن آئین کی پیروی کرتے ہیں۔”
کمیشن نے زور دیا کہ بہار ووٹر لسٹ تنازعہ ایک معمول کا عمل ہے جو ووٹر لسٹ کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، یہ عمل بہار سے شروع ہوا اور دیگر پانچ ریاستوں میں بھی اسے लागو کیا جائے گا۔
بہار ووٹر لسٹ تنازعہ کا پس منظر
بہار، جو کہ اپنی جغرافیائی اور سماجی پیچیدگیوں کے لیے جانا جاتا ہے، غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے پر ہمیشہ سے حساس رہا ہے۔ نیپال اور بنگلہ دیش سے ملحقہ سرحدیں اسے غیر قانونی ہجرت کا ہدف بناتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کا یہ اقدام اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، لیکن اس کے سیاسی اثرات نے اسے ایک متنازعہ معاملہ بنا دیا ہے۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ
کیا یہ تنازعہ حل ہوگا؟
بہار ووٹر لسٹ تنازعہ نے الیکشن کمیشن اور وزارت داخلہ کے درمیان اختیارات کے دائرہ کار پر ایک اہم بحث چھیڑ دی ہے۔ سپریم کورٹ کے سوالات نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ کیا یہ تنازعہ ایک شفاف انتخابی عمل کی طرف لے جائے گا، یا یہ سیاسی تناؤ کو مزید بڑھائے گا؟
اس تنازعہ کے حل کے لیے الیکشن کمیشن کو اپنے عمل کو زیادہ شفاف اور غیر جانبدار بنانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی، سیاسی جماعتوں کو بھی اس عمل کو غیر ضروری طور پر سیاسی رنگ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔