روس-یوکرین امن مذاکرات 2025 ترکی میں دو گھنٹوں سے کم وقت میں ختم۔ جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہ ہوا، تناؤ بڑھ گیا۔ جانیں کہ بات کہاں بگڑی اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔
Table of Contents
رروس-یوکرین امن مذاکرات کا پس منظر
ترکی میں مذاکرات کی ناکامی: کیا ہوا؟
روس اور یوکرین کے موقف: جنگ بندی پر اختلاف
مذاکرات میں پیش رفت: قیدیوں کی رہائی
امریکی کردار اور عالمی دباؤ
روس-یوکرین تنازع کی وجوہات
مستقبل کے امکانات: کیا امن ممکن ہے؟
رروس-یوکرین امن مذاکرات کا پس منظر
روس اور یوکرین کے درمیان 2014 سے جاری تنازع 2022 میں مکمل جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔ اس جنگ نے یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا بحران پیدا کیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔

2025 میں ترکی کے شہر استنبول میں رروس-یوکرین امن مذاکرات کا انعقاد ایک اہم پیش رفت سمجھا جا رہا تھا۔ توقع تھی کہ یہ مذاکرات تین سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ تاہم، مذاکرات دو گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ختم ہو گئے، جس سے عالمی سطح پر مایوسی پھیل گئی۔
ترکی میں مذاکرات کی ناکامی: کیا ہوا؟
استنبول کے ڈولماباہچے پیلس میں ہونے والے رروس-یوکرین امن مذاکرات ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کی نگرانی میں شروع ہوئے۔ فیدان نے دونوں فریقین سے جنگ بندی کی فوری ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ یہ مذاکرات دونوں ممالک کے رہنماؤں کی ممکنہ ملاقات کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
لیکن مذاکرات شروع ہوتے ہی رگڑ پیدا ہو گئی۔ یوکرین نے جنگ بندی کو مذاکرات کی بنیادی شرط قرار دیا، جبکہ روس نے ایسی شرائط پیش کیں جنہیں یوکرین نے “ناقابل قبول” قرار دیا۔ یوکرین کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ روس نے مطالبہ کیا کہ یوکرین اپنی فوج کو بڑے علاقوں سے واپس بلائے، جو کہ “دھوکہ دہی” کے مترادف ہے۔
روس کے وفد کی قیادت صدر ولادیمیر پوٹن کے قریبی ساتھی ولادیمیر میدینسکی نے کی، جبکہ یوکرین کی طرف سے وزیر دفاع رستم عمروف نے نمائندگی کی۔ دونوں فریقین ایک یو شکل کی میز پر آمنے سامنے بیٹھے، لیکن بات چیت دو گھنٹوں سے کم وقت میں ختم ہو گئی۔
روس اور یوکرین کے موقف: جنگ بندی پر اختلاف
رروس-یوکرین امن مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کے متضاد موقف ہیں۔
یوکرین کا موقف: یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے واضح کیا کہ مذاکرات سے پہلے کم از کم 30 دن کی جنگ بندی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بغیر جنگ بندی کے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ روس اس دوران اپنی فوجی طاقت کو دوبارہ منظم کر سکتا ہے۔ زیلنسکی نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اور پولینڈ سے مطالبہ کیا کہ اگر روس جنگ بندی سے انکار کرتا ہے تو اس پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔
روس کا موقف: روس کے نمائندے میدینسکی نے کہا کہ وہ مذاکرات سے “مطمئن” ہیں، لیکن انہوں نے جنگ بندی کی شرط کو مسترد کر دیا۔ روس کا اصرار ہے کہ یوکرین اپنی فوج کو ڈونباس اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے ہٹائے اور روس کے قبضے والے علاقوں کو تسلیم کرے۔ یوکرین نے اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
روس کے صدر پوٹن نے مذاکرات سے قبل زیلنسکی کے ساتھ براہ راست ملاقات کی دعوت کو بھی ٹھکرا دیا اور اس کے بجائے ایک نچلی سطح کا وفد بھیجا، جسے یوکرین نے “مذاکرات کی سنجیدگی پر سوال” قرار دیا۔
مذاکرات میں پیش رفت: قیدیوں کی رہائی
اگرچہ رروس-یوکرین امن مذاکرات میں جنگ بندی پر کوئی اتفاق نہیں ہوا، لیکن ایک چھوٹی سی پیش رفت ضرور ہوئی۔ دونوں ممالک 1000 قیدیوں کے تبادلے پر متفق ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں فریقین اپنے یرغمالی فوجیوں اور شہریوں کی رہائی کو ممکن بنائیں گے۔
تاہم، یوکرین نے اسے “ناکافی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کے بغیر یہ معاہدہ تنازع کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتا۔
روس-یوکرین امن مذاکرات: امریکی کردار اور عالمی دباؤ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے رروس-یوکرین امن مذاکرات کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں میں اس جنگ کو ختم کر دیں گے۔ تاہم، دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔
ٹرمپ نے ابتدائی طور پر مذاکرات میں شرکت کے اشارے دیے تھے، لیکن آخری لمحات میں وہ پیچھے ہٹ گئے۔ یوکرین نے اسے “امریکی عزم میں کمی” قرار دیا۔ دوسری جانب، یورپی رہنماؤں نے کیو میں ایک اجلاس منعقد کیا اور روس پر 30 دن کی جنگ بندی قبول نہ کرنے کی صورت میں “بڑے پیمانے پر پابندیاں” عائد کرنے کی دھمکی دی۔
روس-یوکرین تنازع کی وجوہات
رروس-یوکرین امن مذاکرات کی ناکامی کو سمجھنے کے لیے تنازع کی جڑوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
علاقائی تنازعات: روس نے 2014 میں کریمیا پر قبضہ کیا اور ڈونباس کے کچھ حصوں کو کنٹرول کیا۔ یوکرین ان علاقوں کو اپنا حصہ مانتا ہے اور روس سے مکمل انخلاء کا مطالبہ کرتا ہے۔
نیٹو کی توسیع: روس، یوکرین کے نیٹو میں شمولیت کے امکانات کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
عالمی پابندیاں: مغربی ممالک کی طرف سے روس پر عائد پابندیوں نے اسے مذاکرات کی طرف دھکیلا، لیکن روس ان پابندیوں کو ہٹانے کی شرط رکھتا ہے، جسے یوکرین مسترد کرتا ہے۔
مستقبل کے امکانات: کیا امن ممکن ہے؟
رروس-یوکرین امن مذاکرات کی حالیہ ناکامی نے امن کے امکانات کو دھندلا دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی کی ثالثی کے باوجود فوری جنگ بندی مشکل ہے کیونکہ دونوں فریقین اپنی شرائط پر اڑے ہوئے ہیں۔
تاہم، کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عالمی دباؤ، خاص طور پر امریکہ اور یورپ کی طرف سے پابندیوں کی دھمکی، روس کو مذاکرات کی میز پر واپس لا سکتا ہے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا کہ وہ پوٹن کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن صرف اس صورت میں جب جنگ بندی پر اتفاق ہو۔
رروس-یوکرین امن مذاکرات 2025 کی ناکامی نے عالمی برادری کو مایوس کیا ہے۔ ترکی میں ہونے والی یہ بات چیت، جو امن کی ایک امید تھی، دو گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ختم ہو گئی۔ جنگ بندی پر اتفاق نہ ہونے سے نہ صرف تناؤ بڑھا ہے بلکہ یورپ میں جاری اس تباہ کن جنگ کے خاتمے کے امکانات بھی کم ہو گئے ہیں۔
اب عالمی رہنماؤں اور ثالثوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں فریقین کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لائیں۔ کیا روس اور یوکرین اپنے اختلافات کو ختم کر کے امن کی راہ ہموار کر سکتے ہیں؟ یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے۔