غزہ میں اسرائیلی حملے: 48 گھنٹوں میں 300 سے زائد فلسطینی شہید، جبکہ اقوام متحدہ نے قحط کے خطرے کی شدید وارننگ جاری کی ہے۔ جنگ بندی کے مطالبات عالمی سطح پر زور پکڑ رہے ہیں۔
Table of Contents
غزہ میں اسرائیلی حملوں کی شدت
حالیہ 48 گھنٹوں کی تباہی: 300 سے زائد فلسطینی شہید
غزہ میں قحط کا خطرہ: اقوام متحدہ کی وارننگ
عالمی ردعمل اور جنگ بندی کے مطالبات
اسرائیل کا موقف اور حماس کے خلاف مہم
غزہ کے عوام کی مشکلات: بے گھری اور بنیادی سہولیات کی کمی
تاریخی تناظر: غزہ تنازع کی جڑیں
امن کی راہ میں رکاوٹیں اور مستقبل کے امکانات
غزہ میں اسرائیلی حملوں کی شدت
غزہ میں اسرائیلی حملوں نے ایک بار پھر انسانی تباہی کی بدترین شکل اختیار کر لی ہے۔ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فضائیہ کی بمباری سے 300 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ ہزاروں زخمی ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اکتوبر 2023 سے جاری اس جنگ نے اب تک 53,000 سے زائد فلسطینیوں کی جانیں لے لی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی قحط کے دہانے پر ہے، کیونکہ اسرائیل نے گزشتہ 76 دنوں سے انسانی امداد کی ترسیل کو روک رکھا ہے۔

یہ رپورٹ غزہ میں جاری بحران کے تازہ ترین واقعات، عالمی ردعمل، اور اس تنازع کے تاریخی تناظر پر روشنی ڈالتی ہے۔ ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ غزہ کے عوام کس طرح اس تباہی کا سامنا کر رہے ہیں اور عالمی برادری اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔
حالیہ 48 گھنٹوں کی تباہی: 300 سے زائد فلسطینی شہید
غزہ میں اسرائیلی حملوں کی حالیہ لہر نے انسانی جانوں کے نقصان کو ناقابل برداشت سطح تک پہنچا دیا ہے۔ شمالی غزہ کے انڈونیشیائی اسپتال کے ڈائریکٹر مروان السلطان نے بتایا کہ “آدھی رات سے اب تک ہمارے اسپتال میں 58 شہداء کے جسد خاکی لائے جا چکے ہیں، جبکہ متعدد افراد اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال کے وسائل انتہائی محدود ہیں، اور زخمیوں کو مناسب علاج فراہم کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
فلسطینی حکام کے مطابق، گزشتہ 48 گھنٹوں میں ہونے والی بمباری نے رہائشی علاقوں، اسپتالوں، اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام سکولوں کو نشانہ بنایا۔ ایک واقعے میں، وسطی غزہ کے البوریج علاقے میں ایک سکول پر دوہرے حملے کیے گئے، جس میں 30 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔
یہ حملے اس وقت ہو رہے ہیں جب غزہ کی پٹی پہلے ہی بنیادی ڈھانچے کی تباہی سے دوچار ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، ان حملوں کا مقصد حماس کے عسکری ڈھانچے کو ختم کرنا ہے، لیکن فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ شہری آبادی کو دانستہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
غزہ میں قحط کا خطرہ: اقوام متحدہ کی وارننگ
غزہ میں اسرائیلی حملوں کے ساتھ ساتھ، انسانی امداد کی روک تھام نے ایک اور سنگین بحران کو جنم دیا ہے: قحط کا خطرہ۔ اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے سکیورٹی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “غزہ کی پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔ 76 دنوں سے امدادی سامان کی ترسیل روکی جا رہی ہے، جس نے غذائی قلت کو ناقابل برداشت سطح تک پہنچا دیا ہے۔”
عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق، شمالی غزہ میں 18 لاکھ سے زائد افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ خوراک کی قیمتوں میں 10 گنا اضافہ ہو چکا ہے، اور بنیادی اشیائے خوراک جیسے آٹا اور چینی تک رسائی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔
ایک X پوسٹ میں، صارف @faisalaljasem نے غزہ کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “بچے سوء تغذیہ کی وجہ سے مر رہے ہیں، جبکہ اسرائیل امدادی سامان کی ترسیل کو روک رہا ہے۔” یہ پوسٹ غزہ کے عوام کی مشکلات اور عالمی برادری کی خاموشی کے خلاف بڑھتے ہوئے غم و غصے کی عکاسی کرتی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی حملے: عالمی ردعمل اور جنگ بندی کے مطالبات
غزہ میں بڑھتی ہوئی تباہی نے عالمی برادری کو ایک بار پھر حرکت میں لا دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ “غزہ میں بھوک کا بحران ناقابل قبول ہے۔ ہمیں فوری طور پر امدادی سامان کی ترسیل کو یقینی بنانا ہوگا۔” انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرے۔
جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں اسرائیل کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ امداد کی روک تھام اور شہریوں پر حملے نسل کشی کے مترادف ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو نسل کشی قرار دیا ہے۔
پاکستان نے بھی غزہ میں اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ “یہ حملے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔”
غزہ میں اسرائیلی حملے: اسرائیل کا موقف اور حماس کے خلاف مہم
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے 5 مئی کو اعلان کیا کہ اسرائیل حماس کے خلاف ایک “وسیع اور شدید” فوجی آپریشن شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہمارا مقصد حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کا مکمل خاتمہ ہے۔”
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے حملے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کا جواب ہیں، جس میں 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور 250 افراد یرغمال بنائے گئے تھے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، غزہ میں 30 فیصد علاقے کو “سیکیورٹی بفر زون” میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اور 1,200 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
تاہم، فلسطینی حکام اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی کارروائیاں شہریوں کے خلاف اجتماعی سزا کے مترادف ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا کہ “غزہ کی آبادی کو ایسی صورتحال میں دھکیلا جا رہا ہے جہاں ان کا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔”
غزہ کے عوام کی مشکلات: بے گھری اور بنیادی سہولیات کی کمی
غزہ میں اسرائیلی حملوں نے بنیادی ڈھانچے کو تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ کی 80 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے، اور 200,000 سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا یا تباہ کیا جا چکا ہے۔
اسپتالوں میں ایندھن کی شدید قلت کے باعث ایمبولینسز اور طبی آلات بند ہو چکے ہیں۔ شمالی غزہ میں پانی کی فراہمی معطل ہے، اور شہری دفاع کی ٹیمیں ملبے سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے میں ناکام ہیں۔
ایک فلسطینی شہری، ربیع الشنداگلی نے اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “رات کے وقت دھماکہ ہوا، اور میں نے سوچا کہ یہ معمول کی گولہ باری ہے۔ لیکن صبح جب باہر نکلا تو دیکھا کہ لوگ ملبے سے لاشیں اور زخمیوں کو نکال رہے ہیں۔”
تاریخی تناظر: غزہ تنازع کی جڑیں
غزہ تنازع کی جڑیں کئی دہائیوں پرانی ہیں۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تناؤ جاری ہے۔ 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا، جسے اقوام متحدہ اب بھی مقبوضہ علاقے سمجھتا ہے۔
2007 سے، حماس کے غزہ پر کنٹرول کے بعد، اسرائیل اور مصر نے اس علاقے کا سخت محاصرہ کر رکھا ہے، جس نے غزہ کے 21 لاکھ باشندوں کو بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا ہے۔ اس محاصرے نے غزہ کی معیشت کو تباہ کر دیا، اور 80 فیصد آبادی انسانی امداد پر انحصار کرتی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی حملے: امن کی راہ میں رکاوٹیں اور مستقبل کے امکانات
غزہ میں اسرائیلی حملوں نے نہ صرف انسانی جانوں کا بے پناہ نقصان کیا بلکہ خطے کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ قحط کا بڑھتا خطرہ اور امدادی سامان کی روک تھام نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ عالمی برادری سے جنگ بندی اور امدادی ترسیل کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں، لیکن اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
غزہ کے عوام ایک بہتر مستقبل کے مستحق ہیں۔ عالمی برادری کو فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ اس انسانی بحران کو روکا جا سکے۔ کیا امن کی کوئی امید باقی ہے؟ یہ سوال ہر اس شخص کے ذہن میں ہے جو غزہ کے حالات پر نظر رکھتا ہے۔