راہل گاندھی نے اپنا ہندو مذہب بیان کرتے ہوئے بی جے پی پر حملہ کیا۔ کیا یہ ‘کانگریس ہندو مخالف’ بیانیے کا جواب ہے؟ ان کے حالیہ بیانات اور ماضی کے تنازعات پر تفصیلی جائزہ۔
Table of Contents
راہل گاندھی نے اپنا ہندو مذہب کیوں بیان کیا؟
راہل گاندھی ہندو ہیں لیکن بی جے پی جیسے نہیں: تازہ بیان
ماضی میں راہل گاندھی ہندو مذہب پر تنازعات
بی جے پی کا ‘کانگریس ہندو مخالف’ بیانیہ
راہل گاندھی کا ہندو مذہب پر نقطہ نظر
کیا یہ سیاسی حکمت عملی ہے؟

راہل گاندھی نے اپنا ہندو مذہب کیوں بیان کیا؟
راہل گاندھی، کانگریس کے اہم رہنما اور اپوزیشن لیڈر، نے ایک بار پھر اپنے ہندو مذہب کا ذکر کرتے ہوئے بی جے پی پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں کہا کہ وہ بھی ہندو ہیں، لیکن ان کا ہندو مذہب بی جے پی کے لیڈروں جیسا نہیں جو ان کے خیال میں امتیازی سلوک کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ بیان انہوں نے آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کے اجلاس کے دوران دیا۔ اس بیان کے بعد سیاسی حلقوں میں بحث چھڑ گئی کہ کیا یہ بی جے پی کے اس بیانیے کا جواب ہے کہ ‘کانگریس ہندو مخالف’ ہے؟ راہل گاندھی ہندو مذہب کو بارہا اپنے بیانات میں پیش کرتے رہے ہیں، لیکن ہر بار ان کے بیانات تنازعات کا سبب بنتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ان کے تازہ بیانات، ماضی کے تنازعات اور اس کے سیاسی مضمرات پر بات کریں گے۔
راہل گاندھی ہندو ہیں لیکن بی جے پی جیسے نہیں
راہل گاندھی نے اپنے حالیہ خطاب میں وکف بل اور مذہبی آزادی کے موضوع پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وکف بل کا پاس ہونا مذہبی آزادی اور آئین پر حملہ ہے۔ انہوں نے بی جے پی کے لیڈروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں، لیکن ان کا رویہ ہندو مذہب کے اصولوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے راجستھان کے اپوزیشن لیڈر ٹیکا رام جولی کا حوالہ دیا، جو ایک دلت رہنما ہیں۔ راہل گاندھی کے مطابق، جب ٹیکا رام مندر گئے تو بی جے پی کے لیڈروں نے مندر کو دھلوا دیا۔ انہوں نے کہا:
“ہم بھی اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں، لیکن ایک دلت کو مندر جانے سے روکنا اور مندر کو دھلوانا ہمارا مذہب نہیں۔ ہمارا ہندو مذہب ہر شخص کا احترام کرتا ہے۔”
یہ بیان بی جے پی کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ کانگریس ہندوؤں کے خلاف ہے۔ راہل گاندھی ہندو مذہب کو ایک جامع اور روادار مذہب کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جو بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے سے مختلف ہے۔
ماضی میں راہل گاندھی ہندو مذہب پر تنازعات
راہل گاندھی ہندو مذہب کے حوالے سے کئی بار تنازعات میں گھر چکے ہیں۔ آئیے چند اہم واقعات پر نظر ڈالیں
٢٠١٤ کے انتخابات اور جنئو دھاری ہندو
٢٠١٤کے لوک سبھا انتخابات کے دوران بی جے پی نے کانگریس پر ہندو مخالف ہونے کا الزام لگایا۔ اس کے جواب میں کانگریس نے راہل گاندھی کو “جنئو دھاری ہندو” کے طور پر پیش کیا۔ اس دوران انہوں نے کئی مندروں کا دورہ کیا، لیکن جب وہ گجرات کے سومناتھ مندر گئے تو ان کی مذہبی شناخت پر سوالات اٹھے۔ بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے غیر ہندوؤں کے رجسٹر میں نام درج کیا، جسے کانگریس نے جھوٹ قرار دیا۔
کیلاش مانسروور یاترا (2018)
اگست-ستمبر 2018 میں راہل گاندھی کیلاش مانسروور کی یاترا پر گئے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا کہ یہ ان کے لیے ایک روحانی تجربہ تھا۔ سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ یہ بی جے پی کے ہندو مخالف بیانیے کو کمزور کرنے کی کوشش تھی۔
ہندو بمقابلہ ہندوتوا (2021)
جے پور میں ایک ریلی کے دوران راہل گاندھی نے کہا
میں ہندو ہوں لیکن ہندوتوا پسند نہیں۔ ہندو مذہب سچائی اور عدم تشدد کا راستہ دکھاتا ہے، جبکہ ہندوتوا نفرت اور تشدد کو بڑھاتا ہے
اس بیان پر بی جے پی نے شدید ردعمل دیا اور کہا کہ وہ ہندوتوا کو بدنام کر رہے ہیں۔
ستیہ، شیو، سندرم (2023)
اکتوبر 2023 کو راہل گاندھی نے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھا، جس میں انہوں نے ہندو مذہب کی تعریف کی۔ انہوں نے لکھا کہ ہندو وہ ہے جو اپنے خوف کا مقابلہ کرتا ہے اور سچائی کی تلاش کرتا ہے۔ یہ ان کی ہندو شناخت کو مضبوط کرنے کی ایک اور کوشش تھی۔
بی جے پی کا ‘کانگریس ہندو مخالف’ بیانیہ
بی جے پی نے کئی سالوں سے کانگریس کو ہندو مخالف قرار دینے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کانگریس اقلیتوں کی خوشنودی کے لیے ہندوؤں کے مفادات کو نظر انداز کرتی ہے۔ راہل گاندھی کے بیانات کو اکثر اس بیانیے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب انہوں نے ہندو اور ہندوتوا کے درمیان فرق بتایا تو بی جے پی نے اسے ہندو مذہب پر حملہ قرار دیا۔ اسی طرح، جب راہل گاندھی نے مندروں کے دورے کیے تو بی جے پی نے اسے سیاسی ڈرامہ کہا۔
لیکن راہل گاندھی اپنے تازہ بیانات کے ذریعے اس بیانیے کو چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا ہندو مذہب بی جے پی کے ہندوتوا سے مختلف ہے، جو ان کے خیال میں تشدد اور امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔
راہل گاندھی کا ہندو مذہب پر نقطہ نظر
راہل گاندھی ہندو مذہب کو ایک جامع اور انسان دوست مذہب کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں
ہندو مذہب سچائی اور عدم تشدد کی تعلیم دیتا ہے
یہ ہر شخص کے احترام اور کمزوروں کی حفاظت کا درس دیتا ہے
بی جے پی کا ہندوتوا اس کے برعکس ہے اور مذہب کے نام پر نفرت پھیلاتا ہے
انہوں نے اپنے مضمون “ستیہ، شیو، سندرم” میں لکھا
“ایک ہندو اپنے وجود میں ہر چیز کو رحم اور وقار کے ساتھ قبول کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ زندگی کے اس سمندر میں ہم سب ڈوب رہے ہیں اور اٹھ رہے ہیں۔”
یہ نقطہ نظر ان کے سیاسی بیانیے کا حصہ ہے، جس کے ذریعے وہ بی جے پی کے ہندوتوا کے مقابلے میں ایک متبادل پیش کر رہے ہیں۔
کیا یہ سیاسی حکمت عملی ہے؟
راہل گاندھی کا اپنا ہندو مذہب بار بار بیان کرنا کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ بی جے پی کے ‘کانگریس ہندو مخالف’ بیانیے نے ہندو ووٹروں کے درمیان کانگریس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ راہل گاندھی اس بیانیے کو کمزور کرنے کے لیے اپنی ہندو شناخت کو اجاگر کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ووٹر اسے قبول کریں گے؟
ان کے بیانات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہندو مذہب کی ایک نئی تشریح پیش کرنا چاہتے ہیں جو بی جے پی کے ہندوتوا سے الگ ہو۔ تاہم، ماضی کے تنازعات سے یہ واضح ہے کہ بی جے پی ان کے ہر بیان کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہے گی۔ کیا راہل گاندھی اس حکمت عملی سے بی جے پی کے بیانیے کو شکست دے پائیں گے؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔