بی جے پی پر سپریم کورٹ کو دھمکی: اویسی نے بی جے پی کے نیشیکانت دوبے کے سپریم کورٹ کے خلاف متنازع بیان پر سخت تنقید کی، الزام لگایا کہ بی جے پی سپریم کورٹ کو مذہبی جنگ کی دھمکی دے رہی ہے۔ مکمل تفصیلات جانیں۔
Table of Contents
نیشیکانت دوبے کا متنازع بیان
بی جے پی سپریم کورٹ دھمکی: اویسی کا ردعمل
آرٹیکل 142 کیا ہے؟
اپوزیشن کا بی جے پی پر حملہ
بی جے پی کا بیان سے لاتعلقی کا اعلان
سیاسی تنازع کیوں اہم ہے؟
بی جے پی سپریم کورٹ دھمکی: کیا ہے پورا معاملہ؟

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمنٹ نیشیکانت دوبے کے ایک حالیہ بیان نے بھارت کی سیاسی فضا کو گرم کر دیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ پر الزام لگایا کہ وہ ملک میں “مذہبی جنگ” اور “گھریلو جنگ” کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس بیان پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے سخت ردعمل دیتے ہوئے بی جے پی پر عدلیہ کو دھمکی دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ اویسی نے بی جے پی کے لیڈروں کو “ٹیوبیں” قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 142 سے ناواقف ہیں، جسے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تیار کیا تھا۔
اس تنازع نے نہ صرف سیاسی حلقوں بلکہ عام شہریوں میں بھی بحث چھیڑ دی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں، جن میں کانگروس، سماج وادی پارٹی، اور عام آدمی پارٹی شامل ہیں، نے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے۔ دوسری طرف، بی جے پی نے خود کو اس بیان سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نیشیکانت دوبے کا ذاتی موقف ہے اور پارٹی اس کی حمایت نہیں کرتی۔
نیشیکانت دوبے کا متنازع بیان
نیشیکانت دوبے، جو جھارکھنڈ کے گوڈا سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں، نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں سپریم کورٹ پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا:
> “سپریم کورٹ کا ایک ہی مقصد ہے: تم مجھے چہرہ دکھاؤ، میں تمہیں قانون دکھاؤں گا۔ سپریم کورٹ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ اگر ہر چیز کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے تو پھر پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کو بند کر دینا چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ ملک میں جاری “گھریلو جنگوں” کے ذمہ دار ہیں۔ دوبے کا یہ بیان وکف (ترمیمی) ایکٹ 2025 سے متعلق سپریم کورٹ کی سماعت کے تناظر میں سامنے آیا، جہاں عدالت نے اس قانون کے کچھ حصوں پر سوالات اٹھائے اور ان پر عمل درآمد روکنے کی ہدایت دی۔
بی جے پی سپریم کورٹ دھمکی: اویسی کا ردعمل
حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے نیشیکانت دوبے کے بیان کو عدلیہ کے خلاف کھلی دھمکی قرار دیا۔ انہوں نے بی جے پی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا:
> “آپ لوگ (بی جے پی) ٹیوبیں ہیں۔ کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ آرٹیکل 142 کیا ہے؟ اسے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تیار کیا تھا۔ بی جے پی دھوکہ دہی کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو مذہبی جنگ کی دھمکی دے رہی ہے۔”
اویسی نے وزیراعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اپنے لیڈروں کو نہ روکیں گے تو ملک کمزور ہوگا اور عوام انہیں معاف نہیں کریں گے۔ انہوں نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ اس کے حامی “انتہا پسند” ہو چکے ہیں اور وہ عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آرٹیکل 142 کیا ہے؟
آرٹیکل 142 بھارتی آئین کا ایک اہم حصہ ہے جو سپریم کورٹ کو اپنے سامنے پیش کیے گئے کسی بھی معاملے میں “مکمل انصاف” فراہم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت عدالت کو وسیع اختیارات حاصل ہیں کہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انصاف کو یقینی بنائے۔ اویسی نے بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس آرٹیکل سے ناواقف ہیں، جو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تیار کردہ ہے۔
بی جے پی پر سپریم کورٹ کو دھمکی: اپوزیشن کا بی جے پی پر حملہ
نیشیکانت دوبے کے بیان کے بعد اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے کہا کہ بی جے پی عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا:
> “بی جے پی سپریم کورٹ کو کمزور کرنے میں مصروف ہے۔ آئین نے سپریم کورٹ کو جو اختیارات دیے ہیں، انہیں کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔”
اسی طرح، کانگریس لیڈر بی وی سری نواس نے کہا کہ نیشیکانت دوبے جیسے “شرپسند” ارکان پارلیمنٹ اپنے لیڈروں کے اشاروں کے بغیر سپریم کورٹ کے خلاف بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بی جے پی صدر جے پی نڈا پر طنز کیا کہ وہ “رام کا نام لے کر چھری گھونپ رہے ہیں۔”
بی جے پی کا بیان سے لاتعلقی کا اعلان
بی جے پی نے نیشیکانت دوبے اور ایک دیگر رکن پارلیمنٹ دینیش شرما کے بیانات سے خود کو الگ کر لیا۔ پارٹی صدر جے پی نڈا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا:
> “بی جے پی کا نیشیکانت دوبے اور دینیش شرما کے عدلیہ اور چیف جسٹس کے بارے میں دیے گئے بیانات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں، لیکن بی جے پی نہ تو ان بیانات سے متفق ہے اور نہ ہی ان کی حمایت کرتی ہے۔”
نڈا نے مزید کہا کہ پارٹی نے دونوں ارکان کو مستقبل میں اس طرح کے بیانات دینے سے روک دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی زور دیا کہ بی جے پی ہمیشہ عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور اسے جمہوریت کا اہم ستون سمجھتی ہے۔
بی جے پی پر سپریم کورٹ کو دھمکی: سیاسی تنازع کیوں اہم ہے؟
یہ تنازع اس لیے اہم ہے کیونکہ یہ عدلیہ اور قانون ساز اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے سوال کو سامنے لاتا ہے۔ نیشیکانت دوبے نے سپریم کورٹ پر قانون سازی کے عمل میں مداخلت کا الزام لگایا، جبکہ اویسی اور اپوزیشن نے اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔ وکف (ترمیمی) ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ کی سماعت نے اس تنازع کو مزید ہوا دی، کیونکہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے لیے حساس ہے۔
سابق سپریم کورٹ جج اشوک کمار گنگولی نے اس معاملے پر کہا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور سپریم کورٹ کی ذمہ داری آئین کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
نیشیکانت دوبے کا بیان اور اس پر اویسی کا ردعمل بھارت کی سیاست میں ایک نئے تنازع کا آغاز بن گیا ہے۔ بی جے پی سپریم کورٹ دھمکی کے الزامات نے پارٹی کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے، جبکہ اپوزیشن اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے رہی ہے۔ یہ معاملہ نہ صرف سیاسی بلکہ آئینی سطح پر بھی اہم ہے، کیونکہ یہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیارات کے توازن کے سوال کو اجاگر کرتا ہے۔
آپ اس تنازع کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا یہ واقعی عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے یا پارلیمنٹ کے حقوق کی بات؟ اپنی رائے کمنٹس میں شیئر کریں۔
Read More