وقف ترمیمی بل 2025: اویسی کی دہلی  جائیدادوں پر خطرے کی پیش گوئی

نئی دہلی: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے وقف (ترمیمی) بل 2025 کو مسلم کمیونٹی کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس بل کے قانون بنتے ہی سرکار دہلی میں تقریباً 180 وقف جائیدادوں، جن میں تاریخی مساجد، درگاہیں، اور دیگر مذہبی مقامات شامل ہیں، کو اپنے کنٹرول میں لے لے گی۔ یہ جائیدادیں فی الحال آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے غیر قانونی قبضے میں ہیں، اور اویسی نے اسے ایک منظم حکومتی سازش قرار دیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ بل نہ صرف وقف بورڈ کے اختیارات کو ختم کرے گا بلکہ مسلم کمیونٹی کے مذہبی ورثے کو بھی خطرے میں ڈال دے گا، جو صدیوں سے ان کی شناخت کا حصہ رہا ہے۔

وقف ترمیمی بل 2025 کے خلاف اویسی کا احتجاج، دہلی کی 180 جائیدادوں کے تنازع کا مرکز۔
وقف ترمیمی بل 2025 کے خلاف اویسی کا احتجاج، دہلی کی 180 جائیدادوں کے تنازع کا مرکز۔

وقف ترمیمی بل 2025: اویسی کا الزام خفیہ شقوں سے مذہبی ورثے پر حملہ

اویسی نے بل میں شامل “تھری ڈی سیکشن” کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ شق وقف بورڈ سے مساجد، امام بارگاہوں، اور درگاہوں کو چھیننے کی کوشش ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ سیکشن پارلیمانی بحث کے دوران خفیہ طور پر شامل کی گئی، جو آئینی تقاضوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
مذہبی مقامات کا خطرہ: اویسی کے مطابق، اس شق کے تحت سرکار مسلم کمیونٹی کے مقدس مقامات کو اپنے کنٹرول میں لے لے گی، جو ایک سنگین مسئلہ ہے۔
غیر آئینی عمل: انہوں نے بتایا کہ اس شق کو بحث کے آخری لمحات میں شامل کرنا جمہوری عمل کی توہین ہے، جو پارلیمنٹ کے ضابطوں کے منافی ہے۔
وقف کے تحفظ کا نقصان: اویسی نے کہا کہ یہ قانون وقف املاک کے تحفظ کے بجائے انہیں سرکاری قبضے میں دینے کا ذریعہ بنے گا، جو مسلم کمیونٹی کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
مذہبی آزادی کا سوال: انہوں نے زور دیا کہ یہ بل آئین کے آرٹیکل 26 کے تحت دیے گئے مذہبی آزادی کے حقوق کو بھی متاثر کرتا ہے۔

وقف ترمیمی بل 2025: دہلی کی 180 وقف جائیدادوں کا تنازع: ایک گہری نظر

سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، دہلی میں 180 وقف جائیدادوں کو قانونی طور پر وقف قرار دیا گیا تھا، جنہیں دہلی وقف بورڈ کے حوالے کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ تاہم، اویسی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت انہیں “چھیننے” کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جو ایک طویل عرصے سے زیر بحث معاملے کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔
تاریخی اہمیت: ان جائیدادوں میں کئی تاریخی مساجد، درگاہیں اور دیگر مذہبی مقامات شامل ہیں جو مسلم ورثے کا اہم حصہ ہیں۔
اے ایس آئی کا کردار: یہ جائیدادیں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے غیر قانونی قبضے میں ہیں، اور اس پر کئی دہائیوں سے قانونی لڑائی جاری ہے۔
حکومتی ارادہ: اویسی نے خدشہ ظاہر کیا کہ بل کے نفاذ کے بعد یہ جائیدادیں سرکاری کنٹرول میں آئیں گی، جو مسلم کمیونٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔
سچر کمیٹی کی سفارشات: کمیٹی نے ان جائیدادوں کو وقف بورڈ کے حوالے کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن حکومتی رویہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔

 وقف ترمیمی بل 2025: لوک سبھا میں احتجاج: بل کی کاپی پھاڑنے کا واقعہ

بدھ کے روز لوک سبھا کے اجلاس کے دوران اویسی نے اپنی مخالفت کو عملی شکل دی اور بل کی کاپی پھاڑ کر ایک تاریخی احتجاج کیا، جو سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بن گیا۔
احتجاج کا مقصد: اویسی نے اسے “ہندوستان کے ایمان پر حملہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔
وزیر اعظم پر تنقید: انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام لگایا کہ انہوں نے اس بل کے ذریعے اقلیتوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ہے، جو ایک سنگین الزام ہے۔
عوامی ردعمل: یہ اقدام سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جہاں کچھ نے اویسی کی حمایت کی، جبکہ کچھ نے اسے پارلیمانی ضابطوں کی خلاف ورزی قرار دیا، جس سے بحث اور گہری ہوئی۔
پارلیمانی رویہ: کچھ رہنماو¿ں نے اسے احتجاج کا غیر مناسب طریقہ قرار دیا، لیکن اویسی نے اپنے مؤقف کو درست قرار دیا۔

وقف ترمیمی بل 2025: سپریم کورٹ تک مقدمہ

وقف ترمیمی بل 2025: سپریم کورٹ

اویسی نے اس بل کو “کالا قانون” قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ہے، جو ان کی قانونی لڑائی کا اہم حصہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں وہ اکیلے تھے جنہوں نے اس بل کی مخالفت کی، جو ان کے لیے ایک چیلنج تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بل آئین کے آرٹیکل 26 کے تحت وقف کو دیے گئے تحفظ کو ختم کرتا ہے، جو ایک بنیادی حق ہے۔
وہ سپریم کورٹ سے اسے غیر آئینی قرار دینے اور مسترد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو اس تنازع کے فیصلے کا مرکز ہوگا۔
قانونی ماہرین کے مطابق، یہ کیس کئی ماہ تک چل سکتا ہے، جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگا۔

وقف ترمیمی بل 2025 کی موجودہ صورتحال اور تنقید

وقف ترمیمی بل 2025 لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظور ہو چکا ہے، لیکن اب صدر کی منظوری کا انتظار ہے، جو اس کے نفاذ کا فیصلہ کن مرحلہ ہوگا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ بل وقف املاک کے انتظام کو بہتر بنائے گا اور بدعنوانی کو روکے گا۔

کانگریس، اے آئی ایم آئی ایم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اسے آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔
مسلم کمیونٹی نے اس کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے ہیں، جو اس تنازع کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بل سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے، جو تنازع کو بڑھا رہا ہے۔

وقف ترمیمی بل 2025: سپریم کورٹ کا فیصلہ دہلی کی 180 جائیدادوں اور سیاسی مستقبل کا فیصلہ کن موڑ

اگر سپریم کورٹ اویسی کے حق میں فیصلہ دیتی ہے، تو یہ بل رد ہو سکتا ہے، لیکن اگر سرکار اپنی پوزیشن برقرار رکھتی ہے، تو دہلی کی 180 وقف جائیدادوں پر قبضہ ایک بڑا تنازع بن سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ اس معاملے کی سمت طے کرے گا، جو کئی مہینوں تک چل سکتا ہے۔
کمیونٹی اسے اپنے مذہبی ورثے کے تحفظ کے لیے ایک لڑائی سمجھتی ہے اور مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔

یہ تنازع بھارت کی سیاسی فضا کو متاثر کر سکتا ہے، خاص طور پر الیکشن سے پہلے اقلیتی ووٹوں پر اثر ڈالے گا۔
سرکار اسے ایک انتظامی اصلاح قرار دے رہی ہے، لیکن اس کی کامیابی مشکوک ہے۔

وقف ترمیمی بل 2025: کیا سرکار اویسی کی پیش گوئی کو عملی جامہ پہنائے گی؟

اسد الدین اویسی کی پیش گوئی اور ان کی قانونی کوششیں اس بل کے مستقبل کو کٹھن بنا رہی ہیں۔ دہلی کی 180 وقف جائیدادوں کا معاملہ نہ صرف مسلم کمیونٹی بلکہ قومی سطح پر اہم ہوگا۔ اگر سپریم کورٹ ان کے مؤقف کی تائید کرتی ہے، تو یہ بل نافذ نہیں ہو سکے گا، لیکن اگر سرکار اپنی پالیسی پر قائم رہتی ہے، تو یہ تنازع طویل عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔ اس صورت میں، مسلم کمیونٹی اپنے مذہبی مقامات کو بچانے کے لیے مزید منظم ہوگی، جو بھارت کی سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک بڑا امتحان ہوگا۔

 

One thought on “وقف ترمیمی بل 2025: اویسی کی دہلی  جائیدادوں پر خطرے کی پیش گوئی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *