وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت، حکومت کو جواب کے لیے 7 دن کی مہلت، نئی تقرریوں اور بائی لاز میں تبدیلی پر روک۔ تازہ اپڈیٹس اور تفصیلات جانیں۔
Table of Contents
وقف ترمیمی قانون: سپریم کورٹ کی اہم سماعت
عدالت کا عبوری فیصلہ اور حکومت کو مہلت
وقف ترمیمی قانون کے خلاف 73 عرضیوں کی سماعت
مرکزی حکومت کا مؤقف اور عدالتی ہدایات
اگلی سماعت اور مستقبل کے امکانات
وقف ترمیمی قانون کیوں ہے متنازع؟
وقف ترمیمی قانون 2025: سپریم کورٹ کی اہم سماعت

نئی دہلی میں سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف دائر 73 عرضیوں پر مسلسل دوسرے دن سماعت کی، جو اس قانون کے مستقبل کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس معاملے پر تفصیلی بحث کی اور مرکزی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے سات دن کی مہلت دی۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگلے حکم تک وقف کی موجودہ حیثیت، تقرریوں، اور بائی لاز میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ یہ فیصلہ نہ صرف وقف املاک کے تحفظ کے لیے اہم ہے بلکہ اس سے قانون کے نفاذ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
وقف ترمیمی قانون 2025: عدالت کا عبوری فیصلہ اور حکومت کو مہلت
سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون 2025کے تین اہم پہلوؤں پر عبوری حکم جاری کرنے کا اشارہ دیا، جن میں شامل ہیں:
وقف قرار دی گئی جائیدادوں کو ڈی-نوٹیفائی کرنے پر پابندی
کلکٹر کے اختیارات پر ممکنہ روک
وقف بورڈز میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت پر عبوری پابندی
مرکزی حکومت نے عدالت سے استدعا کی کہ کوئی بھی عبوری حکم جاری کرنے سے قبل اسے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ عدالت نے اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے حکومت کو سات دن کی مہلت دی ہے۔ اس دوران، عدالت نے سختی سے ہدایت دی کہ وقف بورڈ یا وقف کونسل میں کوئی نئی تقرری نہ کی جائے اور نہ ہی بائی لاز میں تبدیلی کی جائے۔ یہ فیصلہ وقف املاک کے موجودہ ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔
وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف 73 عرضیوں کی سماعت
سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف مجموعی طور پر 73 رٹ عرضیوں پر سماعت ہوئی۔ ان عرضیوں میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ قانون مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور وقف املاک کے نظم و نسق کو غیر معمولی طریقے سے متاثر کرے گا۔ درخواست گزاروں میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے صدر اسدالدین اویسی، جمعیۃ علماء ہند، اور کانگریس کے رکن پارلیمان محمد جاوید سمیت دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔
عدالت نے تمام فریقین کو ہدایت دی کہ وہ آپس میں مشورہ کر کے پانچ اہم اعتراضات طے کریں، جن پر بحث کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 110 سے زائد فائلوں کو پڑھنا ممکن نہیں، اس لیے نوڈل کونسل کے ذریعے کلیدی نکات کو حتمی شکل دی جائے۔ یہ ہدایت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ عدالت اس معاملے کو منظم اور مؤثر انداز میں حل کرنا چاہتی ہے۔
وقف ترمیمی قانون 2025 : مرکزی حکومت کا مؤقف اور عدالتی ہدایات
سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقف ترمیمی قانون 2025 کا مقصد شفافیت اور جوابدہی کو بڑھانا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون وقف املاک کئی برسوں سے زیر بحث ہے، اور اس کی منظوری سے وقف املاک کے غلط استعمال کو روکا جا سکے گا۔ تاہم، درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ قانون آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور وقف کی مذہبی اہمیت کو نظر انداز کرتا ہے۔
سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے اسے جواب داخل کرنے کے لیے وقت دیا، لیکن ساتھ ہی واضح کیا کہ اگلے حکم تک کوئی نیا قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ اس فیصلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عدالت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور تمام فریقین کے دلائل کو سننے کے بعد ہی حتمی فیصلہ کرے گی۔
وقف ترمیمی قانون 2025 : اگلی سماعت اور مستقبل کے امکانات
سپریم کورٹ نے اگلی سماعت 5 مئی 2025 کو مقرر کی ہے، اور صرف پانچ بنیادی عرضی گزاروں کو اس میں پیش ہونے کی اجازت ہوگی۔ اس دوران، نوڈل کونسل کی جانب سے پانچ اہم اعتراضات کو حتمی شکل دی جائے گی، جن پر عدالت تفصیلی بحث کرے گی۔ یہ سماعت اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا وقف ترمیمی قانون 2025 کو برقرار رکھا جائے گا یا اسے منسوخ کیا جائے گا۔
عدالت کے اس عبوری فیصلے کو وقف سے متعلقہ امور میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف وقف املاک کی موجودہ حیثیت برقرار رہے گی بلکہ کسی بھی ممکنہ نئی تقرری یا تبدیلی پر فی الحال پابندی عائد ہو گئی ہے۔
وقف ترمیمی قانون 2025 کیوں ہے متنازع؟
وقف ترمیمی قانون 2025 اس وقت سے متنازع رہا ہے جب سے اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ مسلم تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ قانون وقف املاک پر حکومتی کنٹرول بڑھانے کی کوشش ہے، جو آئین کے تحت مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ خاص طور پر، قانون کی وہ شقیں تنقید کی زد میں ہیں جو کلکٹر کو وقف جائیدادوں کی تحقیقات کا اختیار دیتی ہیں اور غیر مسلموں کو وقف بورڈز میں شامل کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔
دوسری جانب، حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ترامیم وقف املاک کے تحفظ اور شفافیت کے لیے ضروری ہیں۔ بی جے پی لیڈر سید شہنواز حسین نے کہا کہ یہ قانون غریب اور پسماندہ مسلمانوں کے مفاد میں ہے، لیکن اس کے باوجود اسے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اعلان کیا کہ اگر یہ قانون نافذ ہوتا ہے تو وہ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف جائدادیں واقف کی منشا کے مطابق استعمال ہونی چاہئیں، اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔