امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کے شرائط قبول کر لی ہیں۔ حماس سے معاہدہ قبول کرنے کی اپیل کی گئی ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں امن کی راہ ہموار ہو۔ تازہ تفصیلات جانیں۔
ٹرمپ کا 60 روزہ جنگ بندی کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اعلان کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کے شرائط کو قبول کر لیا ہے۔ یہ اعلان مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعہ کو روکنے کی ایک اہم کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو اکتوبر 2023 سے شروع ہوا تھا اور اب تک 58,000 سے زائد فلسطینیوں کی جانیں لے چکا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا
“میرے نمائندوں نے آج اسرائیلیوں کے ساتھ غزہ پر ایک طویل اور نتیجہ خیز ملاقات کی۔ اسرائیل نے 60 روزہ جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کے لیے ضروری شرائط کو قبول کر لیا ہے، جس کے دوران ہم تمام فریقین کے ساتھ مل کر جنگ ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ قطری اور مصری، جنہوں نے امن کے لیے بہت محنت کی ہے، اس حتمی تجویز کو پیش کریں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ حماس یہ معاہدہ قبول کر لے گا، کیونکہ اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا — حالات صرف بدتر ہوں گے۔”

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی برادری غزہ میں جاری تشدد کو روکنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
غزہ تنازعہ کی پس منظر
غزہ میں جاری تنازعہ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شدت اختیار کر گیا جب حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 1,200 سے زائد افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ یرغمالی بنائے گئے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کی، جس سے غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور ہزاروں فلسطینی ہلاک ہوئے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اس تنازعہ میں اب تک 56,647 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی کارروائیاں حماس کے عسکری ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے ہیں، جبکہ حماس کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے۔ اس تنازعہ نے نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو متاثر کیا ہے، جس میں ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
جنگ بندی کے شرائط اور مذاکرات
ٹرمپ نے جنگ بندی کے شرائط کی تفصیلات واضح نہیں کیں، لیکن انہوں نے اشارہ دیا کہ یہ 60 روزہ جنگ بندی امن کی طرف ایک بڑا قدم ہو سکتی ہے۔ قطر اور مصر، جو اس تنازعہ میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، اس معاہدے کی حتمی تجویز حماس تک پہنچائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق، اسرائیل نے یرغمالیوں کی رہائی کو معاہدے کی بنیادی شرط قرار دیا ہے، جبکہ حماس اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء اور غزہ میں امداد کی بلا روک ٹوک رسائی کے مطالبات کر رہی ہے۔
اس سے قبل جنوری 2025 میں ایک 60 روزہ جنگ بندی ہوئی تھی، جو مارچ میں ختم ہو گئی جب اسرائیل نے حماس کی جانب سے مبینہ طور پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا۔ موجودہ تجویز اسی معاہدے کی بحالی کی کوشش ہے، لیکن اس میں کچھ نئے شرائط شامل کی گئی ہیں، جن میں حماس کی قیادت کے جلاوطنی اور غزہ کی گورننس کے لیے چار عرب ممالک (بشمول متحدہ عرب امارات اور مصر) کی مشترکہ نگرانی کا امکان شامل ہے۔
حماس کا ردعمل اور چیلنجز
حماس نے ابھی تک اس تجویز پر سرکاری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم، حماس کے ایک سینئر عہدیدار طاہر النونو نے کہا کہ گروپ کسی بھی ایسی تجویز پر رضامند ہوگا جو جنگ کے مستقل خاتمے، مکمل فوجی انخلاء اور امداد کی رسائی کی ضمانت دے۔
مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ حماس کا مستقل جنگ بندی کا مطالبہ اور اسرائیل کا حماس کے مکمل خاتمے کا عزم ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حماس کا عسکری ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ نہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ، غزہ میں امدادی کارروائیوں پر اسرائیلی فوج کے حملوں کے الزامات نے بھی مذاکرات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ 170 سے زائد این جی اوز نے غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جسے اسرائیل اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج امداد لینے والوں پر “باقاعدگی سے” فائرنگ کرتی ہے۔
بین الاقوامی کردار: قطر اور مصر
قطر اور مصر نے اس تنازعہ میں ثالثی کے طور پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ممالک نے گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔ حالیہ تجویز بھی انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اور ٹرمپ نے ان کی کاوشوں کو سراہا ہے۔
قطر نے حال ہی میں ایک نئی تجویز پیش کی تھی، جسے ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے۔ اس تجویز میں 60 روزہ جنگ بندی کے دوران یرغمالیوں کی رہائی، امدادی سرگرمیوں میں اضافہ اور طویل مدتی امن مذاکرات کے لیے ایک فریم ورک شامل ہے۔
ایران-اسرائیل کشیدگی کا اثر
ٹرمپ کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ اس ماہ کے شروع میں دونوں ممالک کے درمیان جوابی حملوں کے بعد امریکہ نے ایران کے اہم جوہری تنصیبات پر “بنکر بسٹر” بموں سے حملہ کیا، جس کی ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے مذمت کی۔
ایران کی کمزور سیکیورٹی صورتحال نے حماس کی حمایت پر اثر ڈالا ہے، کیونکہ ایران حماس کا اہم حامی ہے۔ اسرائیل نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، لیکن ٹرمپ کی ثالثی نے اسے جنگ بندی کی طرف راغب کیا ہے۔
مستقبل کے امکانات
ٹرمپ کی اس کوشش کو مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔ اگر حماس اس معاہدے کو قبول کر لیتا ہے، تو یہ نہ صرف غزہ میں جاری تشدد کو روک سکتا ہے بلکہ طویل مدتی امن مذاکرات کے لیے ایک بنیاد بھی فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم، مذاکرات کی کامیابی کا انحصار دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی پر ہے، جو فی الحال ایک بڑا چیلنج ہے۔
ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ اگلے ہفتے ملاقات کا بھی اعلان کیا ہے، جہاں وہ جنگ بندی کو حتمی شکل دینے اور یرغمالیوں کی رہائی پر بات کریں گے۔