پاکستانی پرمانو ہتھیار کو چین کی مدد سے دے رہا ہے نئی طاقت ۔ امریکی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان اپنی پرمانو صلاحیت کو مضبوط کرنے کے لیے چین سے تکنیکی اور فوجی امداد لے رہا ہے۔ تفصیلات جانیے۔
پاکستانی پرمانو ہتھیاروں کی نئی طاقت
پاکستان اپنے پاکستانی پرمانو ہتھیاروں کو نئی طاقت دینے کی کوششوں میں مصروف ہے، اور اسے اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے قریبی اتحادی چین سے بھرپور مدد حاصل ہو رہی ہے۔ امریکی رکچھا خفیہ ایجنسی (Defense Intelligence Agency) کی حالیہ ’ورلڈ تھریٹ ایسیسمنٹ‘ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اپنی پرمانو صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے نہ صرف تکنیکی بلکہ فوجی اور معاشی امداد بھی چین سے حاصل کر رہا ہے۔ یہ رپورٹ پاک-چین تعلقات اور خطے کی سلامتی کے حوالے سے اہم سوالات اٹھاتی ہے، خاص طور پر جب بھارت کو پاکستان اپنا سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔
پاکستانی پرمانو ہتھیار: امریکی رپورٹ کا انکشاف
امریکی رپورٹ کے مطابق، پاکستان اپنی پرمانو صلاحیتوں کو جدید بنانے اور اپنے پرمانو ہتھیاروں کے ذخیرے کو مضبوط کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اپنی پرمانو مواد کی حفاظت اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ اس کے لیے وہ غیر ملکی سپلائرز اور بیچوانوں سے مواد اور ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے، جن میں سے زیادہ تر چین سے آ رہے ہیں۔
رپورٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان کے پرمانو پروگرام کے لیے ضروری سامان ہانگ کانگ، سنگاپور، ترکی، اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے ذریعے منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ مواد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMDs) کی تیاری کے لیے استعمال ہو رہا ہے، جو عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
چین کا کردار پاکستانی پرمانو ہتھیاروں میں
چین پاکستان کا سب سے بڑا فوجی سازوسامان فراہم کرنے والا ملک ہے، اور اس کا کردار پاکستانی پرمانو ہتھیاروں کی ترقی میں بھی اہم رہا ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کے مطابق، 2020 سے 2024 تک پاکستان نے اپنے 81 فیصد ہتھیار چین سے درآمد کیے ہیں۔ ان میں جدید لڑاکا طیارے، میزائل، ریڈار، اور فضائی دفاعی نظام شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، چین نے نہ صرف ہتھیاروں کی فراہمی کی بلکہ پاکستان کے مقامی طور پر تیار کردہ کچھ ہتھیاروں میں بھی اپنی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر، جے ایف-17 تھنڈر اور جے-10 سی لڑاکا طیاروں کی تیاری میں چینی ٹیکنالوجی کا بڑا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ، چین نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پاکستان کو پرمانو ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ٹیکنالوجی بھی فراہم کی تھی، جس میں ایم-11 میزائل شامل ہیں۔
چین کی یہ مدد پاکستان کے پرمانو پروگرام کو مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ تاہم، نیوکلیئر سپلائرز گروپ (NSG) کے کچھ ارکان نے چین کی جانب سے پاکستان کو اضافی پرمانو ری ایکٹرز کی فراہمی پر اعتراضات اٹھائے ہیں، کیونکہ یہ NSG کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی ’فرسٹ یوز‘ پالیسی
پاکستان کی پرمانو پالیسی ’فرسٹ یوز‘ (First Use) پر مبنی ہے، یعنی اگر اسے اپنی سلامتی کو خطرہ محسوس ہوا تو وہ پہلے پرمانو ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد بھارت جیسے بڑے دشمن کے خلاف روک تھام کی حکمت عملی اپنانا ہے۔
پاکستان کے پاس چھوٹی اور درمیانی رینج کے بیلسٹک میزائل ہیں، جیسے کہ شاہین-II، جو پرمانو وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ میزائل بھارت کے خلاف اس کی دفاعی حکمت عملی کا اہم حصہ ہیں۔
اس پالیسی کے برعکس، بھارت کی ’نو فرسٹ یوز‘ (No First Use) پالیسی ہے، یعنی وہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال تب تک نہیں کرے گا جب تک اس پر جوہری حملہ نہ ہو۔ یہ پالیسی پاک-بھارت تعلقات میں کشیدگی کا ایک اہم پہلو ہے، کیونکہ پاکستان کی ’فرسٹ یوز‘ پالیسی بھارت کے لیے ایک مستقل خطرہ سمجھی جاتی ہے۔
چین-پاکستان تعلقات میں تناؤ
چین اور پاکستان کے درمیان گہرے تعلقات کے باوجود، حالیہ برسوں میں کچھ تناؤ بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں چینی شہریوں پر دہشت گردانہ حملوں نے چین کے خدشات کو بڑھایا ہے۔ مثال کے طور پر، داسو میں چینی کارکنوں پر حملے اور کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے نے دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر ڈالا ہے۔
چین نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کرے۔ اس سلسلے میں چینی وزیراعظم لی چیانگ کے دورہ پاکستان کے دوران ایک مشترکہ سیکیورٹی میکنزم پر بات ہوئی، جس کے تحت چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں اور فائر فائٹنگ ٹرک فراہم کیے گئے ہیں۔
ان تناؤ کے باوجود، چین پاکستان کی فوجی اور جوہری صلاحیتوں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کی پرمانو حکمت عملی اور بھارت
پاکستان اپنی پرمانو حکمت عملی کو بھارت کے خلاف ایک دفاعی ڈھال کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکی رپورٹ کے مطابق، پاکستان بھارت کو اپنا سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اسی لیے اپنی پرمانو صلاحیتوں کو بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاک-بھارت تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے، خاص طور پر 2025 میں ہونے والے فوجی تصادم کے بعد۔ پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس کے چینی ساختہ جے-10 سی طیاروں نے بھارتی فضائیہ کے کئی طیاروں، بشمول فرانسیسی ساختہ رفال، کو مار گرایا۔ تاہم، بھارت نے ان دعوؤں کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
یہ کشیدگی خطے میں جوہری جنگ کے خطرات کو بڑھاتی ہے۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سینیئر فیلو سومیت گنگولی کے مطابق، کوئی بھی فریق پرمانو ہتھیار استعمال کرنے کی صورت میں ناقابل تلافی نقصان اٹھائے گا
پاکستانی پرمانو ہتھیار: بین الاقوامی ردعمل اور خدشات
پاکستان کے پرمانو پروگرام اور چین کی مدد نے عالمی برادری میں تشویش پیدا کی ہے۔ امریکی محکمہ تجارت نے حال ہی میں 19 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں، جن پر الزام ہے کہ وہ جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت فراہم کر رہی ہیں۔
نیوکلیئر سپلائرز گروپ (NSG) نے بھی چین کی جانب سے پاکستان کو پرمانو ری ایکٹرز کی فراہمی پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکی حکام نے ماضی میں بھی پاکستان پر شمالی کوریا اور چین سے میزائل درآمد کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
ان خدشات کے باوجود، پاکستان اپنے پرمانو پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ انٹرنیشنل ایٹمک انرجی ایجنسی (IAEA) کے معیارات پر پورا اترتا ہے۔
پاکستانی پرمانو ہتھیار:خطے کی سلامتی پر اثرات
پاکستان کا اپنے پاکستانی پرمانو ہتھیاروں** کو مضبوط کرنے کا عزم اور چین کی اس میں مدد خطے کی سلامتی کے لیے اہم اثرات رکھتی ہے۔ پاک-بھارت تعلقات میں کشیدگی اور جوہری ہتھیاروں کی دوڑ نے جنوبی ایشیا کو ایک خطرناک خطہ بنا دیا ہے۔
چین کی مدد سے پاکستان اپنی فوجی اور جوہری صلاحیتوں کو بڑھا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ پاک-بھارت کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرے تاکہ خطے میں استحکام برقرار رہے۔