پہلگام دہشت گرد حملہ: 28 ہلاک، 17 زخمی، ملک بھر میں صدمہ

پہلگام دہشت گرد حملہ: 28 ہلاک، 17 زخمی، ملک بھر میں صدمہ

 پہلگام دہشت گرد حملہ نے 28 معصوم زندگیوں کو چھین لیا اور 17 کو زخمی کر دیا۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے نے پورے بھارت کو غم و غصے میں ڈبو دیا۔ پڑھیں مکمل تفصیلات اور اہم سوالات جو جواب مانگتے ہیں۔

Table of Contents

پہلگام دہشت گرد حملہ: ایک دل دہلا دینے والا واقعہ
ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی کہانیاں
دہشت گردی کا مذہب سے تعلق؟
سیکیورٹی میں ناکامی: سوالات جو جواب مانگتے ہیں
حکومت اور عوام کا ردعمل
پہلگام دہشت گرد حملہ کا معاشی اور سماجی اثر
آگے کا راستہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ

پہلگام دہشت گرد حملہ: ایک دل دہلا دینے والا واقعہ

پہلگام دہشت گرد حملہ: 28 ہلاک، 17 زخمی، ملک بھر میں صدمہ
پہلگام دہشت گرد حملہ: 28 ہلاک، 17 زخمی، ملک بھر میں صدمہ

22 اپریل 2025 کو جموں و کشمیر کے پہلگام میں ہونے والا پہلگام دہشت گرد حملہ ایک ایسی سانحہ ہے جس نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ دہشت گردوں نے بیسران وادی میں سیاحوں پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 28 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوئے۔ یہ حملہ نہ صرف سیاحتی مقام کی خوبصورتی پر داغ لگاتا ہے بلکہ ملک بھر کے عوام کے دلوں میں خوف اور غصہ بھر دیتا ہے۔

یہ حملہ اس لیے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ دہشت گردوں نے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنایا۔ شکار ہونے والوں سے ان کا نام اور کلمہ پڑھنے کا مطالبہ کیا گیا، اور جو اسے نہ پڑھ سکے، انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے نے نہ صرف متاثرہ خاندانوں کو تباہ کیا بلکہ پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔

ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی کہانیاں

پہلگام دہشت گرد حملہ نے مختلف ریاستوں سے آئے ہوئے سیاحوں کو نشانہ بنایا، جن میں عام شہریوں سے لے کر فوجی اور انٹیلی جنس افسران تک شامل تھے۔ کچھ دل دہلا دینے والی کہانیاں یہ ہیں:

شبھم دویدی (اتر پردیش): شبھم کی شادی فروری 2025 میں ہوئی تھی۔ وہ اپنی بیوی ایشانیہ کے ساتھ کشمیر کی خوبصورتی دیکھنے دوبارہ پہلگام آئے تھے۔ دہشت گردوں نے ان سے کلمہ پڑھنے کو کہا، اور جب وہ نہ پڑھ سکے تو ان کے سر میں گولی مار دی۔ ایشانیہ نے دہشت گردوں سے خود کو بھی مارنے کی التجا کی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ جا کر اپنی حکومت کو بتائیں کہ کیا ہوا۔

لیفٹیننٹ ونئے نرول (ہریانہ): ونئے کی شادی 16 اپریل کو ہوئی تھی، اور وہ اپنی نئی زندگی کا آغاز کشمیر سے کرنا چاہتے تھے۔ بدقسمتی سے، دہشت گردوں نے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے ختم کر دی۔

پلوّی اور منجوناتھ (کرناٹک): میڈیا میں ان کے بچے کی تصاویر وائرل ہوئیں۔ منجوناتھ کی بھی اس حملے میں موت ہوئی، اور ان کا خاندان غم کی دلدل میں ڈوب گیا۔

سید عادل حسین شاہ (پہلگام): عادل ایک مقامی گھوڑا سوار تھے، جو اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔ دہشت گردوں نے انہیں بھی نہیں بخشا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حملہ صرف مذہبی بنیادوں پر نہیں تھا۔

یہ صرف چند نام ہیں۔ پہلگام دہشت گرد حملہ نے اتر پردیش، ہریانہ، کرناٹک، اڑیسہ، مہاراشٹر، گجرات، کیرالہ، تمل ناڈو، اور یہاں تک کہ نیپال سے آئے ہوئے سیاحوں کو نشانہ بنایا۔

دہشت گردی کا مذہب سے تعلق؟

اس حملے نے ایک بار پھر مذہب کے نام پر دہشت گردی کے بحث کو چھیڑ دیا ہے۔ دہشت گردوں نے مبینہ طور پر لوگوں سے ان کا مذہب پوچھا اور کلمہ پڑھنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے عوام میں غصہ اور بھی بھڑک اٹھا۔ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ حملہ اس وقت بھی اتنا ہی سفاکانہ ہوتا جب یہ مذہب کے بغیر کیا جاتا۔

دہشت گردی کا اصل چہرہ وہی ہے جو معصوم لوگوں کی جان لیتا ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ پہلگام دہشت گرد حملہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو مذہبی عینک سے نہیں بلکہ انسانیت کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔

سیکیورٹی میں ناکامی: سوالات جو جواب مانگتے ہیں

پہلگام دہشت گرد حملہ نے سیکیورٹی انتظامات پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ بیسران وادی، جسے “چھوٹا سوئٹزرلینڈ” کہا جاتا ہے، ہزاروں سیاحوں سے بھری ہوئی تھی۔ پھر بھی دہشت گرد نہ صرف وہاں تک پہنچے بلکہ اپنی کارروائی کے بعد فرار بھی ہو گئے۔ کچھ اہم سوالات یہ ہیں:

 کیا سیاحتی مقامات پر سیکیورٹی کے مناسب انتظامات تھے؟
 اگر سیکیورٹی موجود تھی تو دہشت گردوں کے خلاف فوری جوابی کارروائی کیوں نہ ہوئی؟
 دہشت گردوں کے فرار ہونے کی ذمہ داری کس کی ہے؟
 کیا خفیہ ایجنسیوں کو حملے کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں ملی؟

حکومت نے دہشت گردی کے خلاف “زیرو ٹالرنس” پالیسی کا اعلان کیا ہے، لیکن اس حملے نے سیکیورٹی نظام کی خامیوں کو بے نقاب کر دیا۔ عوام جواب مانگ رہی ہے کہ آخر اس ناکامی کی ذمہ داری کون لے گا؟

حکومت اور عوام کا ردعمل

حملے کے فوراً بعد وزیرداخلہ امیت شاہ کشمیر روانہ ہوئے اور متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور دیگر رہنماؤں نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کی۔ اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

عوام میں غم اور غصے کا ملاجلا ردعمل دیکھنے کو ملا۔ سوشل میڈیا پر لوگ اپنی سانپتی اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن کچھ عناصر اس موقع کو مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے کے متنازعہ بیانات، جن میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 26 سے 29 کو ختم کرنے کی بات کی، نے تنقید کو جنم دیا۔

پہلگام دہشت گرد حملہ کا معاشی اور سماجی اثر

پہلگام دہشت گرد حملہ نے کشمیر کی سیاحت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ 2023 میں 2 کروڑ سے زائد سیاحوں نے کشمیر کا رخ کیا تھا، لیکن اس حملے کے بعد سیاح خوفزدہ ہیں۔ کئی لوگوں نے اپنے ٹکٹ منسوخ کر دیے، اور ہوٹلوں میں ویرانی چھا گئی۔ مقامی دکانداروں اور کاروباریوں نے حملے کے خلاف بند کا اعلان کیا، جو ان کے غم اور احتجاج کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ حملہ نہ صرف معاشی طور پر نقصان دہ ہے بلکہ سماجی طور پر بھی کشمیری عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ وہ خود کو ہر بار دہشت گردی کے واقعات کے بعد موردِ الزام ٹھہرائے جانے سے پریشان ہیں۔

آگے کا راستہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ

پہلگام دہشت گرد حملہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوجی طاقت سے نہیں بلکہ بہتر خفیہ معلومات، سیکیورٹی انتظامات، اور عوامی اتحاد سے لڑی جا سکتی ہے۔ ہمیں اس حملے کے غم کو نفرت میں تبدیل کرنے کے بجائے متحد ہو کر دہشت گردی کے اصل سرغنہوں تک پہنچنا ہو گا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ سیکیورٹی نظام کو مضبوط کرے، سیاحتی مقامات پر حفاظتی انتظامات بڑھائے، اور عوام کو شفاف طریقے سے تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کرے۔ اس کے ساتھ ہی، ہمیں اپنی زبان اور عمل میں تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کامیاب نہ ہوں۔

Read More 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *