Site icon Urdu India Today

چین اور بھارت کے تعلقات میں بہتری: چینی سفیر شو فی ہونگ کے تازہ بیانات

چین اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ چینی سفیر شو فی ہونگ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہزاروں سال پرانا رشتہ ہے اور مستقبل میں تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ سرحدی تنازع سے لے کر ثقافتی تبادلے تک، جانیے تازہ خبریں۔

چین اور بھارت کے تعلقات میں نئی امید کی کرن

چین اور بھارت کے درمیان تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے سرحدی تنازعات اور سیاسی تلخیوں کی وجہ سے کشیدہ رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ دنوں میں چین کے رویے میں نرمی اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش واضح طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ بھارت میں چین کے سفیر شو فی ہونگ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہزاروں سال پرانا تاریخی اور ثقافتی رشتہ ہے، جو مستقبل میں مزید مضبوط ہوگا۔ انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ چین اور بھارت کے تعلقات ہزاروں سال پرانے ہیں، جبکہ حالیہ تناؤ صرف چند سالوں کا ہے۔

چین اور بھارت کے تعلقات میں بہتری: چینی سفیر شو فی ہونگ کے تازہ بیانات

یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ فوجی کشیدگی کے دوران چین نے بھارت کے خلاف کوئی براہ راست بیان دینے سے گریز کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اپنی خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مضمون میں ہم چین اور بھارت کے تعلقات کے تازہ رجحانات، سرحدی تنازع کے حل کی کوششوں، اور ثقافتی و سفارتی تبادلوں کے امکانات پر تفصیلی جائزہ لیں گے۔

چین اور بھارت کے تعلقات: تاریخی پس منظر

چین اور بھارت کے درمیان تعلقات ہزاروں سال پرانے ہیں، جو قدیم ریشمی راستوں اور بدھ مت کے پھیلاؤ سے جڑے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، مذہبی، اور تجارتی رابطے صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم، 1962 کے چین-بھارت جنگ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید دھچکا پہنچایا۔ اس جنگ میں بھارت کو اپنا ایک بڑا علاقہ چین کے ہاتھوں گنوانا پڑا، جس نے دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج کو گہرا کر دیا۔

2020 میں گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ نے چین اور بھارت کے تعلقات کو ایک بار پھر تناؤ کا شکار کر دیا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازیں بند ہو گئیں، اور تجارت و سفارت کاری میں بھی مشکلات بڑھ گئیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں دونوں ممالک نے سفارتی سطح پر تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جنوری 2025 میں بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مِسری کی چین کے دورے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں دونوں ممالک نے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا۔

شو فی ہونگ کا تازہ بیان: نئی امید کی کرن

بھارت میں چین کے سفیر شو فی ہونگ نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ دونوں ممالک کو ماضی کے تناؤ کو بھلا کر مستقبل پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا:
 “جیسا کہ وزیراعظم مودی نے کہا، بھارت اور چین کے درمیان ہزاروں سال کا رشتہ ہے۔ تناؤ کے یہ چند سال اس طویل تاریخ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ ہمیں نئی نسل اور مستقبل پر توجہ دینی چاہیے۔” 

شو فی ہونگ نے نئی نسل کو دونوں ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی امید ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے نوجوانوں، تھنک ٹینکس، اور یونیورسٹیوں کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جایا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم مودی اور صدر شی جن پنگ نے اچھے ہمسایہ تعلقات کی بحالی کے لیے عزم ظاہر کیا ہے، جو دونوں ممالک کے ترقیاتی اہداف کے لیے ضروری ہے۔

سرحدی تنازع: کیا ہے حل کی راہ؟

چین اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ سرحد سے متعلق ہے، جو لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) پر مرکوز ہے۔ 1962 کی جنگ کے بعد سے دونوں ممالک سرحدی حدود کے تعین پر متفق نہیں ہو سکے۔ حالیہ برسوں میں، خاص طور پر 2020 کی گلوان جھڑپ کے بعد، دونوں ممالک نے سرحد پر فوجی تعیناتی بڑھا دی تھی۔ تاہم، 2024 اور 2025 میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت دیکھی گئی ہے۔

شو فی ہونگ نے سرحدی تنازع کے سوال پر کہا کہ دونوں ممالک کو آگے بڑھنے اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ سرحدی تنازع کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا، اور یہ کہ چین بھارت کے ساتھ پرامن مذاکرات کے لیے پرعزم ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کی یہ نرمی عالمی دباؤ، خاص طور پر امریکہ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف کی وجہ سے ہو سکتی ہے، جس نے چین کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ثقافتی اور سفارتی تبادلے: مستقبل کے امکانات

شو فی ہونگ نے اپنے بیان میں ثقافتی اور سفارتی تبادلوں پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ 2020 سے بند براہ راست پروازوں کو جلد بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک یوتھ ایکسچینج پروگرام شروع کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے، جس کے تحت بھارتی اور چینی نوجوان ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کریں گے۔ اس طرح کے اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔

بھارت اور چین کے درمیان تجارت بھی ایک اہم پہلو ہے۔ 2024-25 میں بھارت کا چین سے درآمدات 103.7 بلین ڈالر تک پہنچ گیا، جبکہ چین کو بھارت کی برآمدات صرف 12.7 بلین ڈالر رہی۔ اس تجارتی عدم توازن کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک مذاکرات کر رہے ہیں۔

چین کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے اسباب

چین کی خارجہ پالیسی میں حالیہ نرمی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ سب سے اہم، امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر 54 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ ہے، جس نے چین کو اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت کی بڑھتی ہوئی عالمی حیثیت اور اس کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بھی چین کے لیے اہم ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے، خاص طور پر جب پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات پہلے ہی مضبوط ہیں۔

چین نے حالیہ برسوں میں پاکستان کے ساتھ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ تاہم، بھارت کے ساتھ حالیہ فوجی تناؤ کے دوران چین نے غیر جانبدار رویہ اپنایا، جو اس کی سفارتی حکمت عملی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔

 کیا واقعی تعلقات بہتر ہوں گے؟

چین کے سفیر شو فی ہونگ کے بیانات سے یہ واضح ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش دونوں ممالک میں موجود ہے۔ تاہم، سرحدی تنازعات، تجارتی عدم توازن، اور خطے میں جغرافیائی سیاسی مقابلہ بازی اب بھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اگر دونوں ممالک سفارتی مذاکرات، ثقافتی تبادلے، اور اقتصادی تعاون پر توجہ دیں تو چین اور بھارت کے تعلقات نئی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کو چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناتے وقت اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے چوکس رہنا چاہیے۔ چین کی وستار پسندانہ پالیسیوں کے پیش نظر، بھارت کو اپنی فوجی اور معاشی طاقت کو مضبوط کرتے ہوئے سفارتی توازن برقرار رکھنا ہوگا۔

Read More 

Exit mobile version