Site icon Urdu India Today

کشمیر حملہ: پاکستان کا مؤقف سخت، بھارت سے ثبوتوں کی فراہمی کا مطالبہ

 پاکستان نے کشمیر حملہ کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ ہندوستان نے پاکستان پر الزامات عائد کیے۔ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے شفاف تفتیش پر زور دیا۔

Table of Contents

تعارف: پہلگام حملے نے کیا دکھایا؟
پاکستان کا غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ
ہندوستان کا ردعمل اور الزامات
دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی
بین الاقوامی ردعمل اور سفارتی کوششیں
مستقبل کے امکانات اور خطرات
امن کے لیے کیا ضروری ہے؟

تعارف: پہلگام حملے نے کیا دکھایا؟

کشمیر حملہ: پاکستان کا مؤقف سخت، بھارت سے ثبوتوں کی فراہمی کا مطالبہ

22 اپریل 2025 کو ہندوستانی زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں واقع بائیسران وادی میں ایک دہشت گرد حملے نے 28 افراد کی جان لے لی، جن میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی سیاح شامل تھے۔ اس حملے کو کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں میں شہریوں پر سب سے مہلک حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ہندوستان نے اس حملے کے لیے پاکستان پر الزام عائد کیا، جبکہ پاکستان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ واقعہ دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو نئی بلندیوں تک لے گیا ہے، جس سے علاقائی استحکام پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 

پاکستان کا غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ

پاکستان نے پہلگام حملے کے بعد ہندوستان کے الزامات کو “بے بنیاد” قرار دیتے ہوئے ایک شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ “پہلگام کا المیہ ہندوستان کی طرف سے الزام تراشی کے کھیل کی ایک اور مثال ہے، جسے اب روکنے کی ضرورت ہے۔” انہوں نے 26 اپریل 2025 کو ایبٹ آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی بھی “غیر جانبدار، شفاف اور معتبر” تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس موقف کی تائید کی، کہتے ہوئے کہ “پاکستان سچائی کو سامنے لانے اور انصاف کے لیے غیر جانبدار تفتیش کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔” انہوں نے زور دیا کہ پاکستان امن اور استحکام کے لیے پرعزم ہے لیکن اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے الزامات “ثبوت کے بغیر” ہیں اور یہ حملہ ایک “جھوٹا فلیگ آپریشن” ہو سکتا ہے۔ انہوں نے لشکر طیبہ جیسے گروپوں سے کسی بھی تعلق سے انکار کیا، کہتے ہوئے کہ یہ گروپ اب پاکستان میں فعال نہیں ہیں۔ 

ہندوستان کا ردعمل اور الزامات

ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے حملے کے بعد سخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ “حملہ آوروں اور ان کے سرپرستوں کو زمین کے کناروں تک تعاقب کیا جائے گا اور انہیں ایسی سزا دی جائے گی جو ان کے تصور سے باہر ہو۔” ہندوستان نے حملے کے لیے “سرحد پار دہشت گردی” کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان کے خلاف کئی اقدامات اٹھائے، جن میں 1960 کا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا، واہگہ سرحد بند کرنا، اور پاکستانی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنا شامل ہیں۔

ہندوستانی پولیس نے تین مشتبہ حملہ آوروں کی شناخت کی، جن میں سے دو کو پاکستانی شہری قرار دیا گیا۔ تاہم، ہندوستان نے اب تک اس الزام کی حمایت میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔ کشمیر پولیس نے ان مشتبہ افراد کے اسکیچز جاری کیے اور ان کی گرفتاری کے لیے 20 لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا۔

ہندوستانی میڈیا اور سیاست دانوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں، جو حالات کو مزید کشیدہ کر رہے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی

پہلگام حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور عسکری کشیدگی عروج پر ہے۔ پاکستان نے ہندوستان کے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو “جنگی عمل” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ پانی کے بہاؤ میں کسی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

دونوں فریقوں نے 25 اپریل 2025 کو کشمیر میں لائن آف کنٹرول (LoC) پر فائرنگ کا تبادلہ کیا، جو چار سال کی نسبتاً سکون کے بعد ایک سنگین پیش رفت ہے۔ ہندوستانی فوج نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے “بلا اشتعال” فائرنگ شروع کی، جبکہ پاکستانی فوج نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

پاکستان نے ہندوستانی ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں، جبکہ ہندوستان نے پاکستانی شہریوں کے ویزوں کو منسوخ کر دیا۔ یہ اقدامات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو کئی دہائیوں کی نچلی سطح پر لے گئے ہیں۔

بین الاقوامی ردعمل اور سفارتی کوششیں

اس حملے کے بعد بین الاقوامی برادری نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے دونوں ممالک سے “زیادہ سے زیادہ تحمل” کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے کی مذمت کی اور ہندوستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، لیکن امریکی محکمہ خارجہ نے ثالثی کی پیشکش سے گریز کیا۔

ایران اور سعودی عرب نے دونوں ممالک سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی۔ سابق پاکستانی سفارت کار ملیحہ لودھی نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی میڈیا اور مودی کی بیان بازی حالات کو “خطرناک تصادم” کی طرف دھکیل رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ہندوستان کی طرف سے کوئی “عسکری کارروائی” پاکستان کی جانب سے سخت ردعمل کا باعث بنے گی۔

مستقبل کے امکانات اور خطرات

پاکستان کا غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ ایک مثبت قدم ہے، لیکن ہندوستان کے موجودہ سخت گیر رویے کے پیش نظر اسے قبول کیے جانے کا امکان کم ہے۔ پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان اس حملے کو کشمیر میں مقامی مزاحمت کو دبانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی خطے کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔ ڈان اخبار کے ایک اداریے میں کہا گیا کہ “نہ پاکستان اور نہ ہی ہندوستان جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں۔” اس نے سفارتی کوششوں پر زور دیا تاکہ حالات کو مزید خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔

ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز نے مشتبہ افراد کے گھروں کو مسمار کر دیا، جس سے مقامی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

امن کے لیے کیا ضروری ہے؟

پہلگام حملہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی دشمنی کا ایک اور مظہر ہے۔ پاکستان کا غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ ایک منطقی اور ذمہ دارانہ اقدام ہے، لیکن اس کے کامیاب ہونے کے لیے ہندوستان کی طرف سے تعاون ضروری ہے۔ دونوں ممالک کو الزام تراشی کے بجائے سفارتی چینلز کے ذریعے بات چیت کو فروغ دینا چاہیے۔

بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور دیگر بڑی طاقتوں کو، اس بحران کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ کشمیر کے عوام، جو دہائیوں سے تنازع کی قیمت ادا کر رہے ہیں، امن اور استحکام کے مستحق ہیں۔

Read More 

Exit mobile version