کولکتہ ریپ کیس: منوجت مشرا کے کالج میں خواتین کے ساتھ ہراسانی کی ہولناک کہانی

کولکتہ ریپ کیس: منوجت مشرا کے کالج

کولکتہ کے ساؤتھ کلکتہ لاء کالج میں منوجت مشرا کے ہاتھوں 24 سالہ طالبہ کے ساتھ ریپ کے واقعے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک اور طالبہ نے انکشاف کیا کہ منوجت مشرا نے کئی طالبات کو ہراساں کیا اور کالج میں خوف کا ماحول بنایا۔ اس کیس کی تفصیلات اور پولیس تحقیقات کے بارے میں جانیں۔

کولکتہ لاء کالج میں ریپ کا ہولناک واقعہ

کولکتہ کے ساؤتھ کلکتہ لاء کالج میں پیش آنے والا ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں 24 سالہ طالبہ کے ساتھ مبینہ طور پر گینگ ریپ کیا گیا۔ اس کیس کے مرکزی ملزم منوجت مشرا، جو کالج کا سابق طالب علم اور عارضی ملازم تھا، نے نہ صرف اس سنگین جرم کا ارتکاب کیا بلکہ کئی سالوں سے کالج میں طالبات کے لیے خوف کی علامت بنا ہوا تھا۔ ایک اور طالبہ نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ منوجت مشرا نے کئی طالبات کو ہراساں کیا اور کالج میں ایک دہشت کا ماحول قائم کیا تھا۔

کولکتہ ریپ کیس: منوجت مشرا کے کالج میں خواتین کے ساتھ ہراسانی کی ہولناک کہانی
کولکتہ ریپ کیس: منوجت مشرا کے کالج میں خواتین کے ساتھ ہراسانی کی ہولناک کہانی

یہ واقعہ 25 جون 2025 کو پیش آیا، جب متاثرہ طالبہ امتحان سے متعلق کچھ رسمیں پوری کرنے کالج آئی تھی۔ پولیس کے مطابق، یہ جرم منصوبہ بند تھا اور منوجت مشرا نے اپنے دو ساتھیوں، پراتم مکھرجی اور زیب احمد کے ساتھ مل کر اسے انجام دیا۔ اس مضمون میں ہم اس کیس کی تفصیلات، منوجت مشرا کے ماضی، اور کالج کے ماحول پر اس کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

منوجت مشرا: کالج میں خوف کی علامت

منوجت مشرا، جو کہ ’مینگو‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ساؤتھ کلکتہ لاء کالج میں ایک ایسی شخصیت تھا جس سے طالبات خوفزدہ رہتی تھیں۔ ایک طالبہ نے بتایا کہ وہ اکثر خواتین طالبات کی تصاویر کھینچتا، انہیں ایڈٹ کر کے واٹس ایپ گروپس میں شیئر کرتا، اور ان کی توہین کرتا تھا۔ اس کے علاوہ، وہ طالبات کو ہراساں کرنے کے لیے عجیب جملے جیسے کہ “تو میری شادی کرے گی؟” استعمال کرتا تھا۔

طالبات کا کہنا ہے کہ منوجت مشرا کی وجہ سے کئی لڑکیوں نے کالج آنا چھوڑ دیا تھا، کیونکہ وہ اس کے ہراسانی کے رویے سے ڈرتی تھیں۔ اس کی دہشت اس قدر تھی کہ نہ صرف طالبات بلکہ اساتذہ اور کالج کا عملہ بھی اس سے خوفزدہ تھا۔ ایک سابق طالب علم، ٹیٹاس مانا نے بتایا کہ منوجت مشرا نے 2013 میں ایک کیٹرنگ ورکر پر چاقو سے حملہ کیا تھا، جس کے بعد اس کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج ہوا تھا، لیکن وہ کچھ عرصے کے لیے غائب ہو گیا اور پھر 2017 میں دوبارہ کالج میں داخلہ لے کر واپس آ گیا۔

طالبہ کا انکشاف: منوجت مشرا کی ہراسانی کی تاریخ

ایک طالبہ نے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ منوجت مشرا نے کئی طالبات کو ہراساں کیا اور ان کے خلاف متعدد ایف آئی آرز درج ہیں، لیکن اس کے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس نے بتایا کہ 2019 میں منوجت نے ایک طالبہ کے کپڑے پھاڑ دیے تھے، جبکہ 2024 میں اس نے ایک سیکیورٹی گارڈ پر حملہ کیا اور کالج کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ، اس پر چوری اور دیگر جرائم کے الزامات بھی ہیں۔

طالبہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ منوجت مشرا کے والدین نے اسے اس کے رویے کی وجہ سے ترک کر دیا تھا۔ اس کا والد، جو کولکتہ کے کالی گھاٹ مندر میں پجاری ہے، نے کہا کہ اگر اس کا بیٹا قصوروار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔

پولیس تحقیقات: منوجت مشرا کا منصوبہ بند جرم

کولکتہ پولیس نے اس کیس کی تحقیقات کے لیے نو رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے، جس کی سربراہی ایک اسسٹنٹ کمشنر کر رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ **منوجت مشرا** اور اس کے ساتھیوں نے اس جرم کو منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا۔ متاثرہ طالبہ کو اس کے کالج میں داخلے کے پہلے دن سے ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ منوجت اور اس کے ساتھیوں نے طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کو اپنے موبائل فونز میں ریکارڈ کیا اور بعد میں ان ویڈیوز کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا۔ اس کیس میں گرفتار تینوں ملزمان – منوجت مشرا، پراتم مکھرجی، اور زیب احمد – کے گھروں کی تلاشی لی گئی، اور پولیس اب ان ویڈیوز کی تلاش میں ہے جو مبینہ طور پر 25 جون کے واقعے کی ہیں۔

سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی متاثرہ طالبہ کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے، جس میں دیکھا گیا کہ اسے زبردستی گارڈ روم میں لے جایا گیا۔ پولیس نے جرم کے مقام سے اہم ثبوت جمع کیے ہیں، جن میں ایک ہاکی اسٹک، بالوں کی تار، اور نامعلوم مائعات سے بھری بوتلیں شامل ہیں۔

منوجت مشرا کے ماضی کے جرائم

منوجت مشرا کے خلاف کئی پرانے مقدمات درج ہیں، جن میں شامل ہیں
٢٠١٣ میں ایک کیٹرنگ ورکر پر چاقو سے حملہ اور اس کی انگلی کاٹنے کا الزام۔
٢٠١٦ میں کالج کے پرنسپل کے دفتر میں توڑ پھوڑ اور ایک شخص پر حملہ۔
٢٠١٩ میں ایک طالبہ کے کپڑے پھاڑنے کا واقعہ۔
٢٠١٩ میں ایک دوست کے گھر سے سونا، موسیقی کا نظام، اور عطر چوری کرنے کا الزام۔
٢٠٢٢ میں کسبا کے سوئنہو لین میں ایک خاتون کو ہراساں کرنے کا مقدمہ۔
٢٠٢٤ میں کالج کے سیکیورٹی گارڈ پر حملہ اور املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام۔
٢٠٢٥ میں ایک پولیس افسر پر حملہ اور گاڑی کی توڑ پھوڑ۔ 

ان تمام مقدمات میں منوجت مشرا کو ضمانت مل گئی، اور اس نے اپنی سیاسی رسائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو سزا سے بچایا۔

سماجی ردعمل اور مستقبل کے تقاضے

اس واقعے نے کولکتہ سمیت پورے بھارت میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے منوجت مشرا کی منافقت پر شدید تنقید کی، کیونکہ اس نے گزشتہ سال آر جی کار میڈیکل کالج میں ریپ کے ایک کیس میں ملزم کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔ 

طالبات اور عوام کا مطالبہ ہے کہ کالجز میں سیکیورٹی کو بہتر کیا جائے اور سیاسی اثر و رسوخ کے باوجود ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس کیس نے ایک بار پھر تعلیمی اداروں میں خواتین کی حفاظت کے سوال کو اہمیت دی ہے۔

انصاف کا مطالبہ

منوجت مشرا اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کولکتہ پولیس کی تحقیقات جاری ہیں، اور عوام انصاف کے منتظر ہیں۔ یہ کیس نہ صرف ایک سنگین جرم کی عکاسی کرتا ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں خواتین کی حفاظت اور سیاسی اثر و رسوخ کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔

Read More 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *