گودی میڈیا کو پونچھ عدالت کا زوردار جھٹکا 2025: محمد قاری اقبال کیس میں ایف آئی آر کا حکم

گودی میڈیا کو پونچھ عدالت کا زوردار جھٹکا: محمد کاری اقبال کیس میں ایف آئی آر کا حکم

گودی میڈیا کو پونچھ عدالت کا زوردار جھٹکا 2025: محمد قاری اقبال کو دہشت گرد قرار دینے والے نیوز 18 اور زی نیوز کے خلاف ایف آئی آر کا حکم۔ پڑھیں مکمل تفصیلات اور گودی میڈیا کی بدعنوانی کی حقیقت۔

گودی میڈیا کی بدعنوانی

گودی میڈیا، جو اپنے جھوٹے بیانیوں اور سنسنی خیز خبروں کے لیے بدنام ہے، ایک بار پھر عدالت کے نشانے پر ہے۔ جموں و کشمیر کی پونچھ عدالت نے نیوز 18 اور زی نیوز کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے، جو محمد قاری اقبال نامی ایک استاد کو دہشت گرد قرار دینے کے جرم میں ملوث ہیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف گودی میڈیا کے لیے ایک کرارا جھٹکا ہے بلکہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس طرح کی بدعنوان صحافت پر لگام کس دی جائے۔ اس مضمون میں ہم اس کیس کی تفصیلات، گودی میڈیا کی شرمناک حرکتوں، اور شیفالی زریوالا کی موت سے متعلق ان کے غیر ذمہ دارانہ کوریج پر روشنی ڈالیں گے۔

گودی میڈیا کو پونچھ عدالت کا زوردار جھٹکا 2025: محمد قاری اقبال کیس میں ایف آئی آر کا حکم
گودی میڈیا کو پونچھ عدالت کا زوردار جھٹکا 2025: محمد قاری اقبال کیس میں ایف آئی آر کا حکم

محمد قاری اقبال کیس: کیا ہوا تھا؟

آپریشن سندور کے دوران، جب پاکستانی گولہ باری میں پونچھ میں کئی افراد ہلاک ہوئے، ان میں سے ایک محمد قاری اقبال بھی تھے، جو ایک مقامی مدرسے میں استاد تھے۔ بدقسمتی سے، گودی میڈیا نے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا۔ نیوز 18، زی نیوز، اور دیگر چینلز نے بغیر کسی تصدیق کے ان پر لشکر طیبہ کے کمانڈر ہونے اور پلومہ حملے میں ملوث ہونے جیسے سنگین الزامات لگائے۔ اس سے نہ صرف محمد قاری اقبال کی عزت کو شدید نقصان پہنچا بلکہ ان کے خاندان کو بھی سماجی طور پر بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس واقعے کے بعد، جب سچ سامنے آیا کہ محمد قاری اقبال ایک عام شہری اور استاد تھے، گودی میڈیا کو معافی مانگنی پڑی۔ لیکن عدالت نے اسے ناکافی قرار دیا اور کہا کہ معافی سے وہ نقصان پورا نہیں ہو سکتا جو خاندان کو پہنچ چکا ہے۔

پونچھ عدالت کا تاریخی فیصلہ

جموں و کشمیر کی پونچھ عدالت نے اس کیس میں ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے نیوز 18 اور زی نیوز کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ گودی میڈیا کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے سے نہ صرف ایک شہری کی عزت کو نقصان پہنچا بلکہ سماجی ہم آہنگی بھی خطرے میں پڑی۔

عدالت کے اہم نکات
بی ایس ایس سیکشن 199: عدالت نے واضح کیا کہ اگر کسی جرم (جیسے ہتک عزت) کا اثر کسی دوسری جگہ ہوتا ہے، تو وہاں بھی مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے پونچھ عدالت کے دائرہ اختیار پر پولیس کا اعتراض مسترد کر دیا گیا۔
آزادی صحافت پر تبصرہ: عدالت نے کہا کہ آئین ہند کے آرٹیکل 19(1)(a) کے تحت صحافت کو آزادی حاصل ہے، لیکن یہ آزادی آرٹیکل 19(2) کے تحت مناسب پابندیوں کے تابع ہے۔ جب بات ہتک عزت، عوامی نظم، یا سماجی ہم آہنگی سے متعلق ہو، تو صحافت کو ذمہ داری سے کام لینا چاہیے۔
غیر ذمہ دارانہ صحافت: ایک فوت شدہ استاد کو بغیر ثبوت کے دہشت گرد قرار دینا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ اس سے عوام میں افراتفری اور نفرت پھیل سکتی ہے۔

یہ فیصلہ گودی میڈیا کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آئیں، ورنہ قانون انہیں سبق سکھانے کے لیے تیار ہے۔

گودی میڈیا کی شرمناک صحافت

گودی میڈیا کی یہ پہلی حرکت نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر انہوں نے اپنی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے شہریوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ کچھ اہم مثالیں

سوشانت سنگھ راجپوت کیس: سوشانت کی موت کے بعد، گودی میڈیا نے ریا چکرورتی کو کالی جادوگرنی قرار دیا اور ان کے خلاف ایک منظم مہم چلائی۔ بغیر کسی ثبوت کے انہیں قاتل تک کہا گیا۔ بعد میں ریا کو عدالت سے کلین چٹ مل گئی، لیکن کسی چینل نے معافی نہیں مانگی۔
تبلیغی جماعت تنازع: کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں میں، گودی میڈیا نے تبلیغی جماعت کے ارکان کو وائرس پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور پورے مسلم طبقے کو بدنام کیا۔ سپریم کورٹ اور اورنگ آباد ہائی کورٹ نے اس رویے کی مذمت کی، لیکن گودی میڈیا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
سونم رگھوونشی کیس: اس کیس میں گودی میڈیا نے دونوں متاثرہ خاندانوں کی ماؤں کو آمنے سامنے بٹھا کر ایک ڈرامائی شو بنایا، جس سے ان کی تکلیف کو اور بڑھایا گیا۔

یہ مثالیں گودی میڈیا کی اس ذہنیت کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ سنسنی خیزی اور نفرت پھیلانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

شیفالی زریوالا کیس: نیچتا کی ایک اور مثال

حال ہی میں اداکارہ شیفالی زریوالا کی 42 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی۔ لیکن گودی میڈیا نے اس سانحے کو بھی ایک تماشے میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے شیفالی کی موت کو سنسنی خیز بنانے کے لیے غیر ضروری اور شرمناک سرخیاں لگائیں، جیسے:
“کیا بگ باس کا گھر شاپت ہے؟”
 “شیفالی کی موت کا جیوتیشی راز: تین گرہوں نے کھولا موت کا راز”
 “صبح کتا گھمانے نکلا شوہر”

ان سرخیوں اور رپورٹس میں شیفالی کے شوہر پراگ کو ایک ولن کے طور پر پیش کیا گیا، جبکہ کوئی تحقیقات بھی مکمل نہیں ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ، جیوتیشیوں کو بٹھا کر ان سے موت کے “گرہوں” کی باتیں کروائی گئیں، جو صحافت کے نام پر ایک مذاق تھا۔

یہ وہی طرز عمل ہے جو گودی میڈیا نے سوشانت سنگھ راجپوت، شری دیوی، اور دیگر کیسز میں دکھایا تھا۔ ان کی رپورٹنگ کا مقصد صرف ٹی آر پی بڑھانا اور عوام کے جذبات سے کھیلنا ہے۔

گودی میڈیا کے خلاف ایکشن کی ضرورت

پونچھ عدالت کا فیصلہ ایک اچھا آغاز ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ گودی میڈیا کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی غیر ذمہ دارانہ صحافت سے باز آئیں۔ کچھ تجاویز

سخت قانونی کارروائی: عدالتوں کو ایسی صورتحال میں فوری ایکشن لینا چاہیے اور گودی میڈیا کو جرمانوں اور مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔
این بی ڈی ایس اے کے اختیارات میں اضافہ: نیشنل براڈکاسٹنگ اینڈ ڈیجیٹل اسٹینڈرڈز اتھارٹی (NBDSA) کو زیادہ طاقت دی جانی چاہیے تاکہ وہ ایسی حرکتوں پر فوری پابندی لگا سکے۔
عوامی بیداری: عوام کو چاہیے کہ وہ گودی میڈیا کے جھوٹے بیانیوں کو مسترد کریں اور سوشل میڈیا کے ذریعے سچ کو عام کریں۔
سپریم کورٹ کی مداخلت: جیسا کہ تبلیغی جماعت کیس میں سپریم کورٹ نے مداخلت کی تھی، اسی طرح گودی میڈیا کے خلاف بڑے پیمانے پر ایکشن کی ضرورت ہے۔

صحافت یا بدمعاشی؟

گودی میڈیا نے اپنی حرکتوں سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ صحافت کے نام پر بدمعاشی کر رہا ہے۔ محمد قاری اقبال کو دہشت گرد قرار دینا ہو یا شیفالی زریوالا کی موت کو تماشہ بنانا، یہ چینلز بار بار ثابت کرتے ہیں کہ ان کا مقصد صرف سنسنی پھیلانا اور نفرت کو ہوا دینا ہے۔ پونچھ عدالت کا فیصلہ ایک امید کی کرن ہے، لیکن اس جنگ کو جیتنے کے لیے ہر سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔

ہم سب کو مل کر گودی میڈیا کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی۔ اگر آپ بھی اس بدعنوانی کے خلاف ہیں، تو اس مضمون کو شیئر کریں اور سچ کو عام کریں۔

Read More 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *