ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت-امریکہ تاریخی تجارتی معاہدے کی تصدیق کی، جس میں محصولات میں کمی اور 2030 تک 500 ارب ڈالر تجارت کا ہدف شامل ہے۔ مذاکرات 9 جولائی کی ڈیڈ لائن سے پہلے جاری ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا تاریخی اعلان: بھارت-امریکہ تجارتی معاہدہ قریب، 2030 تک 500 ارب ڈالر کا ہدف
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر تصدیق کی ہے کہ بھارت اور امریکہ ایک تاریخی بھارت-امریکہ تجارتی معاہدے کے قریب ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔ اس معاہدے کا مقصد نہ صرف محصولات (ٹیرف) میں نمایاں کمی کرنا ہے بلکہ 2030 تک دو طرفہ تجارت کو موجودہ 191 ارب ڈالر سے بڑھا کر 500 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے۔ یہ اعلان عالمی معیشت کے لیے ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ عالمی تجارت پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

بھارت-امریکہ تجارتی معاہدہ: ایک جائزہ
بھارت اور امریکہ کے درمیان حالیہ برسوں میں معاشی تعلقات تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 190 ارب ڈالر سے زائد ہے، اور امریکہ بھارت کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ اس تناظر میں، بھارت-امریکہ تجارتی معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری صدارتی مدت کے دوران عالمی تجارت پر جارحانہ پالیسیوں کو اپنایا ہے، لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششوں نے نئی امیدیں جنم دی ہیں۔
یہ معاہدہ نہ صرف محصولات میں کمی پر مرکوز ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان منصفانہ تجارت کو فروغ دینے اور معاشی توازن قائم کرنے کی کوشش بھی ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے عالمی تجارت میں عدم توازن کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، اور بھارت کے ساتھ یہ معاہدہ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ٹرمپ کی تصدیق اور اہم نکات
ایک جولائی 2025 کو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران بھارت کے ساتھ ایک تاریخی بھارت-امریکہ تجارتی معاہدے** کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا
> “میرا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ ہمارا ایک معاہدہ ہونے والا ہے۔ اور یہ ایک مختلف نوعیت کا معاہدہ ہوگا۔ ایسا معاہدہ جس میں ہم وہاں جا کر مقابلہ کر سکیں گے۔ فی الحال، بھارت کسی کو قبول نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے کہ اب بھارت ایسا کرے گا، اور اگر ایسا ہوا تو پھر یہ ایک ایسا معاہدہ ہوگا جس میں محصولات بہت کم ہوں گے۔”
ٹرمپ کا یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت اپنی مارکیٹ کو امریکی کمپنیوں کے لیے کھولنے پر تیار ہے، جو کہ ماضی میں ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ بھارت نے اپنی ڈیری اور زرعی مارکیٹس کو غیر ملکی کمپنیوں کے لیے محدود رکھا ہے، لیکن اب مذاکرات کے ذریعے اس پالیسی میں نرمی کی امید کی جا رہی ہے۔
نو (9 )جولائی کی ڈیڈ لائن: مذاکرات کی رفتار
بھارت-امریکہ تجارتی معاہدہ پر مذاکرات 9 جولائی 2025 کی ڈیڈ لائن سے پہلے تیزی سے جاری ہیں۔ یہ ڈیڈ لائن اس لیے اہم ہے کیونکہ اس تاریخ کو 90 دن کی ٹیرف نرمی کا عرصہ ختم ہو رہا ہے، جو 2 اپریل 2025 کو عائد کیے گئے 26 فیصد باہمی محصولات کے معطلی کے فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا۔ اگر اس ڈیڈ لائن تک معاہدہ طے نہ ہوا تو یہ محصولات دوبارہ نافذ ہو جائیں گے، جو دونوں ممالک کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
بھارتی وفد، جس کی قیادت چیف نیگوشی ایٹر راجیش اگروال کر رہے ہیں، نے واشنگٹن میں اپنی موجودگی کو طول دیا ہے تاکہ مذاکرات کو حتمی شکل دی جا سکے۔ ابتدائی طور پر 3 اور 4 جولائی کو مذاکرات طے تھے، لیکن اب دونوں فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
بھارت کا زرعی شعبہ اور سخت موقف
بھارت نے بھارت-امریکہ تجارتی معاہدے کے مذاکرات میں زرعی شعبے کے حوالے سے سخت موقف اپنایا ہے۔ بھارت کا زرعی شعبہ نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی طور پر بھی انتہائی حساس ہے۔ بھارت میں زیادہ تر کسان چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری کرتے ہیں، جن کی زمین محدود ہوتی ہے۔ اس وجہ سے زرعی رعایتیں دینا بھارتی حکومت کے لیے ایک مشکل فیصلہ ہے۔
بھارت نے اپنی ڈیری مارکیٹ کو امریکی کمپنیوں کے لیے کھولنے سے گریز کیا ہے، جو کہ امریکی مطالبات کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت اپنی مزدور کثیر مصنوعات جیسے ٹیکسٹائل، گارمنٹس، قیمتی پتھر، چمڑے کی اشیاء، اور زرعی مصنوعات (جھینگے، تیل دار بیج، انگور، اور کیلے) کے لیے ترجیحی رسائی کا خواہاں ہے۔
امریکہ کی جانب سے زرعی اشیاء جیسے سیب، خشک میوے، اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر محصولات میں کمی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ اختلافات مذاکرات میں تاخیر کا باعث بن رہے ہیں، لیکن دونوں فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ معاہدہ طے کرنا دونوں کے مفاد میں ہے۔
امریکہ اور بھارت کے مطالبات
بھارت-امریکہ تجارتی معاہدے کے مذاکرات میں دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکہ کے اہم مطالبات میں شامل ہیں
زرعی اشیاء پر محصولات میں کمی: امریکی کمپنیاں بھارتی مارکیٹ میں سیب، خشک میوے، اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں کے لیے زیادہ رسائی چاہتی ہیں۔
دفاعی سامان کی خریداری: ٹرمپ نے بھارت سے امریکی ساختہ سیکورٹی آلات کی خریداری پر زور دیا ہے۔
منصفانہ تجارت: ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے امریکی مصنوعات پر عائد زیادہ ڈیوٹی کو کم کیا جائے تاکہ امریکی کمپنیوں کے لیے بھارتی مارکیٹ میں کاروبار کرنا آسان ہو۔
دوسری جانب، بھارت کے مطالبات میں شامل ہیں
مزدور کثیر مصنوعات کے لیے رسائی: بھارت ٹیکسٹائل، گارمنٹس، زیورات، اور زرعی مصنوعات کے لیے امریکی مارکیٹ میں ترجیحی رسائی چاہتا ہے۔
ڈیری مارکیٹ کی بندش: بھارت اپنی ڈیری مارکیٹ کو غیر ملکی کمپنیوں کے لیے کھولنے سے گریز کر رہا ہے۔
تکنیکی شعبہ: بھارت چاہتا ہے کہ امریکی کمپنیوں جیسے سٹار لنک کو بھارت میں کام کرنے کی اجازت دی جائے، لیکن اس کے لیے ریگولیٹری رکاوٹوں کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔
2030 تک 500 ارب ڈالر کا ہدف
بھارت-امریکہ تجارتی معاہدے کا سب سے بڑا ہدف موجودہ 191 ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت کو 2030 تک 500 ارب ڈالر تک بڑھانا ہے۔ یہ ایک بلند ہدف ہے جو دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔ اس ہدف کے حصول کے لیے دونوں ممالک کو نہ صرف محصولات میں کمی کرنا ہوگی بلکہ تجارت کے دیگر شعبوں جیسے ٹیکنالوجی، دفاع، اور توانائی کے شعبوں میں بھی تعاون بڑھانا ہوگا۔
بھارت نے امریکی توانائی کی درآمدات کے لیے 25 ارب ڈالر کا وعدہ کیا ہے، جبکہ دفاعی شعبے میں بھی اربوں ڈالر کے معاہدوں پر بات چیت جاری ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت نے اپنی ڈیجیٹل اشتہاری ٹیکس کو 6 فیصد سے ختم کر دیا ہے اور بوربن وہسکی، لگژری کاروں، اور سولر سیلز پر ڈیوٹی کو کم کیا ہے تاکہ امریکی مطالبات کو پورا کیا جا سکے۔
معاہدے کے ممکنہ اثرات
بھارت-امریکہ تجارتی معاہدہ دونوں ممالک کے لیے کئی فوائد کا حامل ہوگا۔ بھارت کے لیے، یہ معاہدہ امریکی مارکیٹ میں اس کی مصنوعات کے لیے زیادہ رسائی فراہم کرے گا، جو خاص طور پر ٹیکسٹائل، زیورات، اور زرعی شعبوں کے لیے اہم ہے۔ اس کے علاوہ، امریکی سرمایہ کاری بھارت کی معیشت کو مزید مضبوط بنائے گی۔
امریکہ کے لیے، یہ معاہدہ بھارتی مارکیٹ میں امریکی کمپنیوں کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا، خاص طور پر زرعی، دفاعی، اور توانائی کے شعبوں میں۔ تاہم، اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو 26 فیصد ٹیرف کی بحالی دونوں ممالک کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
چیلنجز اور مواقع
بھارت-امریکہ تجارتی معاہدے کے راستے میں کئی چیلنجز ہیں، جن میں زرعی شعبے کے حوالے سے بھارت کا سخت موقف اور امریکی مطالبات شامل ہیں۔ بھارت کی ڈیری مارکیٹ کو کھولنا ایک سیاسی طور پر حساس فیصلہ ہے، اور بھارتی حکومت اسے قبول کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، آٹو پارٹس اور اسٹیل کے ٹیرف پر بھی اختلافات موجود ہیں۔
تاہم، یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے نئے مواقع بھی لا سکتا ہے۔ بھارت کے لیے، امریکی مارکیٹ میں رسائی اس کی برآمدات کو بڑھانے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اسی طرح، امریکہ کے لیے بھارتی مارکیٹ میں رسائی اس کی کمپنیوں کو نئے صارفین تک پہنچنے کا موقع فراہم کرے گی۔
بھارت-امریکہ تجارتی معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 9 جولائی کی ڈیڈ لائن سے پہلے مذاکرات کو حتمی شکل دینے کی کوششیں جاری ہیں، اور اگر یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ دونوں ممالک کے لیے ایک تاریخی کامیابی ہوگی۔ ٹرمپ کی جارحانہ تجارتی پالیسیوں کے باوجود، بھارت کے ساتھ یہ معاہدہ ان کی “امریکہ فرسٹ” پالیسی میں ایک مثبت پیش رفت دکھائی دیتا ہے۔
اس معاہدے کا اصل امتحان اس کی عملداری اور دونوں ممالک کے لیے اس کے طویل مدتی فوائد ہوں گے۔ کیا یہ معاہدہ 2030 تک 500 ارب ڈالر کے ہدف کو پورا کر پائے گا؟ اس کا جواب آنے والے برسوں میں سامنے آئے گا۔