سپریم کورٹ 10 جولائی 2025 کو بہار الیکٹورل رول نظرثانی کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرے گی۔ الیکشن کمیشن کے خصوصی نظرثانی فیصلے سے کروڑوں ووٹرز متاثر ہو سکتے ہیں۔ جانیے تفصیلات۔
بہار الیکٹورل رول نظرثانی کیا ہے؟
بہار الیکٹورل رول نظرثانی کا معاملہ حالیہ دنوں میں کافی سرخیوں میں ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) نے بہار میں ووٹرز کی فہرست کے لیے ایک “خصوصی شدید نظرثانی” (Special Intensive Revision) کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت کروڑوں ووٹرز کو اپنی شناخت کے دستاویزات جمع کرانے ہوں گے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں، اگر ووٹرز مقررہ مدت (25 جولائی 2025) تک مطلوبہ دستاویزات جمع نہ کرا سکیں تو ان کے نام ووٹر لسٹ سے خارج ہو سکتے ہیں۔ اس اقدام نے سیاسی، قانونی اور سماجی حلقوں میں ایک ہلچل مچا دی ہے، اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے، جو 10 جولائی 2025 کو اس کی سماعت کرے گی۔

یہ مضمون بہار الیکٹورل رول نظرثانی کے تناظر میں اہم حقائق، درخواست گزاروں کے دلائل، اور اس فیصلے کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لے گا۔
سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت
7 جولائی 2025 کو، سپریم کورٹ نے بہار الیکٹورل رول نظرثانی کے خلاف دائر چار درخواستوں کو فوری طور پر سماعت کے لیے قبول کر لیا۔ سینئر ایڈووکیٹس کپل سبل، ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی، گوپال سنکرانارائنن، اور شدان فراست نے مشترکہ طور پر اس معاملے کو جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جویمالیا باغچی کی جزوی طور پر فعال بنچ کے سامنے پیش کیا۔
درخواست گزاروں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر فوری سماعت کی جائے کیونکہ اس سے بہار کے کروڑوں ووٹرز کے ووٹنگ حقوق خطرے میں ہیں۔ عدالت نے اسے تسلیم کرتے ہوئے 10 جولائی کو سماعت کی تاریخ مقرر کی اور الیکشن کمیشن کو پیشگی نوٹس دینے کی ہدایت دی۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ اور اس کے اثرات
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق، بہار کے تقریباً 8 کروڑ ووٹرز میں سے 4 کروڑ سے زائد کو اپنی شناخت کے دستاویزات جمع کرانے ہوں گے۔ اس عمل کے لیے آخری تاریخ 25 جولائی 2025 مقرر کی گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی ووٹر مطلوبہ دستاویزات جمع نہ کرا سکے تو اس کا نام ووٹر لسٹ سے ہٹایا جا سکتا ہے، چاہے وہ گزشتہ بیس سال سے انتخابات میں ووٹ ڈال رہا ہو۔
سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے عدالت میں کہا کہ یہ ایک “ناممکن” کام ہے، کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر دستاویزات جمع کرانا عملی طور پر مشکل ہے۔ گوپال سنکرانارائنن نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نہ تو آدھار کارڈ اور نہ ہی ووٹر کارڈ کو شناخت کے طور پر قبول کر رہا ہے، جو ووٹرز کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔
درخواست گزاروں کے خدشات
بہار الیکٹورل رول نظرثانی کے خلاف درخواست گزاروں میں راشٹریہ جنتا دل (RJD) کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR)، پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (PUCL)، سماجی کارکن یوگیندر یادو، اور لوک سبھا کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی درخواستوں میں کئی اہم نکات اٹھائے ہیں:
ووٹنگ حقوق کا تحفظ: درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بنیادی جمہوری حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ کروڑوں ووٹرز، جو برسوں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، غیر ضروری طور پر اپنے ووٹنگ حقوق سے محروم ہو سکتے ہیں۔
سخت ٹائم لائن: 25 جولائی کی آخری تاریخ کو غیر عملی قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت میں کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹرز کے لیے دستاویزات جمع کرانا ایک ناممکن کام ہے۔
دستاویزات کی پابندی: الیکشن کمیشن کی طرف سے آدھار کارڈ یا ووٹر کارڈ جیسے عام دستاویزات کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ ووٹرز کے لیے اضافی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
شفافیت کا فقدان: درخواست گزاروں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن نے اس عمل کی وجوہات یا اس کے نفاذ کے طریقہ کار کے بارے میں واضح معلومات فراہم نہیں کیں۔
بہار الیکٹورل رول نظرثانی کے قانونی اور عملی چیلنجز
قانونی چیلنجز
بہار الیکٹورل رول نظرثانی کا فیصلہ آئینی نقطہ نظر سے بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ آئین ہند کے آرٹیکل 326 کے تحت ہر بالغ شہری کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، اور اس حق کو غیر ضروری پابندیوں کے ذریعے سلب نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اس بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
عملی چیلنجز
بہار جیسے گنجان آباد اور معاشی طور پر پسماندہ صوبے میں، جہاں خواندگی کی شرح اور انتظامی ڈھانچہ محدود ہے، کروڑوں ووٹرز سے مختصر وقت میں دستاویزات جمع کرانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے ووٹرز، خاص طور پر خواتین اور پسماندہ طبقات، کو اس عمل میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عوامی ردعمل اور سیاسی تناظر
بہار الیکٹورل رول نظرثانی کا فیصلہ سیاسی حلقوں میں بھی ایک بڑا موضوع بن چکا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل (RJD) سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے اسے بہار کے ووٹرز کو دبانے کی ایک حکومتی سازش قرار دیا ہے۔ RJD کے رہنما منوج جھا نے کہا کہ یہ فیصلہ خاص طور پر غریب اور پسماندہ طبقات کو نشانہ بناتا ہے، جو اپوزیشن کے مضبوط ووٹر بیس ہیں۔
دوسری طرف، الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل ووٹر لسٹ کو زیادہ شفاف اور درست بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ تاہم، کمیشن نے ابھی تک اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آدھار کارڈ یا ووٹر کارڈ جیسے دستاویزات کو کیوں قبول نہیں کیا جا رہا۔
عوامی سطح پر بھی اس فیصلے کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے کہ ایکس، پر کئی صارفین نے اسے “جمہوریت پر حملہ” قرار دیا ہے۔ ایک ایکس پوسٹ میں ایک صارف نے لکھا: “جب ووٹرز کے پاس پہلے سے ووٹر کارڈ موجود ہے تو نئی دستاویزات کی ضرورت کیوں؟ یہ صرف غریبوں کو ووٹ سے محروم کرنے کی سازش ہے۔”
مستقبل کے امکانات
بہار الیکٹورل رول نظرثانی کا معاملہ نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی اور سماجی طور پر بھی انتہائی اہم ہے۔ سپریم کورٹ کی سماعت سے اس معاملے میں ایک واضح سمت ملنے کی توقع ہے۔ اگر عدالت الیکشن کمیشن کے فیصلے کو منسوخ کرتی ہے یا اس میں ترمیم کا حکم دیتی ہے، تو یہ بہار کے کروڑوں ووٹرز کے لیے ایک بڑی راحت ہو گی۔ دوسری طرف، اگر یہ فیصلہ برقرار رہتا ہے، تو اس کے بہار کی سیاسی زمین پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس وقت، ووٹرز اور سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس عمل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلائیں اور ووٹرز کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔