گودی میڈیا کی جانب سے بی جے پی کی حمایت میں وائرل کلپ کی حقیقت اور بہار میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر خاموشی۔ پاپا کی پری کے متنازع بیانات اور سڑکوں کی خرابی پر مکمل تجزیہ۔
گودی میڈیا کا کردار اور وائرل کلپ
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا ہے، جس میں ایک خاتون اینکر، جسے سوشل میڈیا پر “پاپا کی پری” کے نام سے جانا جاتا ہے، بی جے پی کی حمایت میں عجیب و غریب منطق پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ اس کلپ میں وہ کہتی ہیں کہ انتخابات “باپ” ہیں، عوام “ماں” ہیں، اور بی جے پی “بچہ” ہے، جو ہر حال میں جیت جائے گا۔ یہ بیانات نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ صحافتی معیار پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس وائرل کلپ کا تجزیہ کریں گے، گودی میڈیا کے کردار پر بات کریں گے، اور بہار میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور خراب انفراسٹرکچر پر روشنی ڈالیں گے، جس پر گودی میڈیا خاموش ہے۔
گودی میڈیا کا بی جے پی کے لیے پروپیگنڈا
گودی میڈیا، جو ایک اصطلاح ہے جو ان میڈیا ہاؤسز کے لیے استعمال ہوتی ہے جو مبینہ طور پر حکومتی ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں، حالیہ برسوں میں تنقید کی زد میں رہا ہے۔ اس وائرل کلپ میں، اینکر نہ صرف بی جے پی کی جیت کی پیش گوئی کرتی ہیں بلکہ اس کے لیے ایک غیر منطقی تمثیل پیش کرتی ہیں، جس میں انتخابات کو “باپ”، عوام کو “ماں”، اور بی جے پی کو “بچہ” قرار دیا گیا ہے۔ اس تمثیل کا مقصد بی جے پی کی جیت کو ناگزیر ثابت کرنا ہے، لیکن یہ صحافتی غیر جانبداری کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ایسے بیانات گودی میڈیا کے اس الزام کو تقویت دیتے ہیں کہ وہ حکمراں جماعت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے اس کلپ پر شدید تنقید کی ہے، اور کئی لوگوں نے اسے “صحافت کا مذاق” قرار دیا ہے۔
بہار میں بدامنی: گودی میڈیا کی خاموشی
جبکہ گودی میڈیا بی جے پی کی جیت کے دعووں میں مصروف ہے، بہار میں بدامنی اور جرائم کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں، بہار میں کئی سنگین جرائم رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں ایک صنعت کار وکرم جھا کا قتل، گوپال کھیمکا پر حملہ، سیوان میں چار افراد کو تلوار سے کاٹنے کا واقعہ، اور پورنیا میں ایک خاندان کو ڈائن قرار دے کر زندہ جلا دینے کی ہولناک خبر شامل ہے۔ ان واقعات نے بہار کی قانون و انتظام کی صورتحال پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں، لیکن گودی میڈیا ان مسائل پر بات کرنے سے گریز کر رہا ہے۔
بہار کے نائب وزیراعلیٰ وجے سنہا نے ان واقعات پر پولیس کی ناکامی کو تسلیم کیا اور کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیانات محض رسمی ہیں؟ کیوں کہ ماضی میں بھی اس طرح کے وعدوں پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
انفراسٹرکچر کی تباہی: سڑکیں، پل، اور گودی میڈیا کی خاموشی
بہار ہی نہیں، بھارت کے کئی دیگر حصوں میں انفراسٹرکچر کی حالت زار بھی گودی میڈیا کے لیے کوئی موضوع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر:
ناگپور کا فلائی اوور: ناکام افتتاح سے قبل ہی ٹوٹ گیا، جہاں سے مرکزی وزیر نتن گڈکری اور مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس ہیں۔
ہریانہ میں سڑک کا گڑھا: گروگرام میں ایک سڑک پر اتنا بڑا گڑھا کہ پورا ٹرک اس میں گر گیا۔
راجستھان کی سڑکیں اور پل: جھنجھنوں میں سڑک افتتاح سے قبل نہر میں تبدیل ہو گئی، جبکہ 243 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والا پل عدالت کے حکم پر بند کر دیا گیا۔
ان تمام مسائل کے باوجود، گودی میڈیا بی جے پی کے زیر انتظام ریاستوں میں انفراسٹرکچر کی خرابی پر سوال اٹھانے سے گریز کرتا ہے۔ اس کے برعکس، جب اپوزیشن کی ریاستیں ہوں، تو چھوٹے سے چھوٹا معاملہ بھی ڈیبیٹ کا موضوع بن جاتا ہے۔
گودی میڈیا کی دوغلی پالیسی: اپوزیشن پر حملہ، بی جے پی پر خاموشی
گودی میڈیا کی جانبداری کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈروں کے چھوٹے سے چھوٹے بیانات پر طوفان کھڑا کر دیتا ہے، لیکن بی جے پی کے لیڈروں کے متنازع بیانات یا ناکامیوں پر خاموش رہتا ہے۔ مثال کے طور پر، مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے رکن پارلیمان راجیش مشرا نے دو حاملہ خواتین سے بدتمیزی سے بات کی جب انہوں نے سڑکوں کی خرابی کی شکایت کی۔ انہوں نے کہا کہ “ڈرامہ بند کرو، ڈیلیوری کے دن تمہیں اٹھوا لیں گے۔” اس طرح کے بیانات نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہیں بلکہ عوام کے ساتھ بی جے پی لیڈروں کے تکبر کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
اسی طرح، گجرات میں گمبھیر پل کے ٹوٹنے سے 15 افراد ہلاک ہوئے، لیکن گودی میڈیا نے اسے سنجیدگی سے نہیں اٹھایا۔ ایک ماں کی چیخ، جو اپنے بیٹے کو گاڑی سے نکالنے کی التجا کر رہی تھی، گودی میڈیا کے کانوں تک نہیں پہنچی۔

شندے سرکار کا تنازع: گودی میڈیا کی خاموشی
حال ہی میں ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں شندے سینا کے وزیر شریشت کو مبینہ طور پر کروڑوں روپے کے ساتھ دیکھا گیا۔ صحافی سدھیر سریاوںشی کے مطابق، ان پر ایک ہوٹل 65 کروڑ روپے میں خریدنے کا الزام ہے، جبکہ اس کی مارکیٹ ویلیو 120 کروڑ روپے تھی۔ سوال یہ ہے کہ ایک وزیر کے پاس اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی؟ لیکن گودی میڈیا نے اس معاملے پر کوئی ڈیبیٹ نہیں کی۔
گودی میڈیا سے عوام کو کیا توقعات ہونی چاہئیں؟
صحافت کا بنیادی اصول غیر جانبداری اور سچائی ہے۔ لیکن گودی میڈیا کے حالیہ رویے نے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ عوام کو حق ہے کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں سے سوال کرے، اور میڈیا کو اس کی آواز بننا چاہیے۔ لیکن جب میڈیا خود ہی ایک سیاسی جماعت کا ترجمان بن جائے، تو یہ نہ صرف صحافت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ جمہوریت کے لیے بھی خطرہ ہے۔
گودی میڈیا کی جانب سے بی جے پی کی کھلی حمایت اور بہار سمیت دیگر ریاستوں میں بدامنی اور خراب انفراسٹرکچر پر خاموشی نے صحافت کے معیار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ پاپا کی پری کے وائرل کلپ نے اس حقیقت کو عیاں کیا ہے کہ کس طرح غیر منطقی تمثیلوں کے ذریعے بی جے پی کی جیت کو ناگزیر دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا اور آزاد صحافت کے ذریعے حقیقت تک پہنچے اور گودی میڈیا کے پروپیگنڈے سے ہوشیار رہے۔