وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی سماعت 16 اپریل کو ہوگی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بنچ اس متنازع قانون کے آئینی جواز پر فیصلہ سنائے گی۔ مکمل تفصیلات یہاں پڑھیں۔
Table of Contents
١-تعارف: وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کیا ہے؟
٢-سپریم کورٹ کی سماعت: اہم تفصیلات
٣-وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف درخواستیں
٤-عرضیوں میں لگائے گئے الزامات
٥-مرکزی حکومت کا موقف
٦-مسلم کمیونٹی کا ردعمل
٧-وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے اہم نکات
٨-آئندہ کیا ہوگا؟
وقف ترمیمی ایکٹ 2025: سپریم کورٹ میں قانونی جنگ شروع

نئی دہلی: وقف ترمیمی ایکٹ 2025، جو حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور مرکزی حکومت کی طرف سے نوٹیفائی کیا گیا، اب سپریم کورٹ کے کٹہرے میں ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ 16 اپریل 2025 کو اس قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں کی سماعت کرے گی۔ اس بنچ میں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن بھی شامل ہیں۔
یہ معاملہ اس وقت مزید دلچسپ ہوگیا جب مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک “کیویٹ” دائر کی، جس میں عدالت سے درخواست کی گئی کہ اس معاملے میں کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے ان کا موقف بھی سنا جائے۔ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف دائر درخواستوں کی تعداد 10 سے زائد ہوچکی ہے، جن میں سیاسی جماعتیں، مسلم تنظیمیں، اور سول سوسائٹی گروپس شامل ہیں۔
تعارف: وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کیا ہے؟
وقف ترمیمی ایکٹ ٢٠٢٥ ایک ایسا قانون ہے جو وقف املاک کے انتظام، ان کی رجسٹریشن، اور ان کے استعمال سے متعلق نئے ضوابط متعارف کرتا ہے۔ اسے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، اور مرکزی حکومت نے اسے منگل، یعنی 8 اپریل 2025 کو نوٹیفائی کردیا۔ اس قانون کا مقصد وقف بورڈز کے اختیارات کو محدود کرنا، شفافیت کو بڑھانا، اور غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی وقف املاک کو واگزار کرانا بتایا گیا ہے۔
تاہم، مسلم کمیونٹی کے کئی حلقوں نے اسے اپنے مذہبی اور آئینی حقوق پر حملہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف ان کی خودمختاری کو متاثر کرتا ہے بلکہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔
وقف ترمیمی ایکٹ 2025: سپریم کورٹ کی سماعت: اہم تفصیلات
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق، وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت 16 اپریل 2025 کو طے کی گئی ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جو اپنے سخت گیر اور منصفانہ فیصلوں کے لیے مشہور ہیں، اس بنچ کی سربراہی کریں گے۔ ان کے ساتھ جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن بھی اس معاملے کو دیکھیں گے۔
یہ سماعت اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے اس سے پہلے ہی “کیویٹ” دائر کر کے اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیویٹ ایک قانونی درخواست ہوتی ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عدالت کسی فریق کو سنے بغیر کوئی فیصلہ نہ دے۔
وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف درخواستیں
سپریم کورٹ میں اب تک 10 سے زائد درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB): اس نے کہا کہ یہ قانون وقف املاک کے انتظام میں غیر ضروری مداخلت کرتا ہے۔
جمعیت علمائے ہند: اس تنظیم نے اسے مسلم کمیونٹی کے مذہبی حقوق پر حملہ قرار دیا۔
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی: انہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید: ان کا کہنا ہے کہ یہ بل آئین کے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔
عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان: انہوں نے بھی اسے چیلنج کیا۔
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس: اس این جی او نے کہا کہ یہ قانون شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
وقف ترمیمی ایکٹ 2025: عرضیوں میں لگائے گئے الزامات
درخواستوں میں وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ قانون آئین کے درج ذیل آرٹیکلز کی خلاف ورزی کرتا ہے:
آرٹیکل 14: مساوات کا حق۔
آرٹیکل 15: مذہب، نسل، یا جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے تحفظ۔
آرٹیکل 21: زندگی اور آزادی کا حق۔
آرٹیکل 25: مذہبی آزادی کا حق۔
آرٹیکل 26: مذہبی اداروں کے انتظام کا حق۔
آرٹیکل 29 اور 30: اقلیتوں کے ثقافتی اور تعلیمی حقوق۔
آرٹیکل 300A: جائیداد کے حقوق۔
عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف مسلم کمیونٹی کے حقوق کو سلب کرتا ہے بلکہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
وقف ترمیمی ایکٹ 2025: مرکزی حکومت کا موقف
مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے دفاع میں کہا ہے کہ یہ قانون وقف املاک میں شفافیت لانے اور ان کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کے مطابق، کئی وقف بورڈز میں بدعنوانی کے الزامات سامنے آئے ہیں، اور یہ ترامیم اس نظام کو بہتر بنائیں گی۔
حکومت نے سپریم کورٹ میں کیویٹ دائر کر کے یہ بھی واضح کیا کہ وہ اس معاملے میں اپنا مکمل موقف پیش کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون کسی کمیونٹی کے خلاف نہیں بلکہ انتظامی اصلاحات کے لیے ہے۔
وقف ترمیمی ایکٹ 2025: مسلم کمیونٹی کا ردعمل

وقف ترمیمی ایکٹ 2025کے نوٹیفکیشن کے بعد سے ملک کے مختلف حصوں میں مسلم کمیونٹی کے بڑے طبقے نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد، اور ممبئی جیسے شہروں میں مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون ان کے مذہبی اداروں ک
ی خودمختاری کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔
وقف ترمیمی ایکٹ 2025: وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے اہم نکات
اس قانون کے کچھ اہم پہلو یہ ہیں
١-وقف املاک کی رجسٹریشن: تمام وقف املاک کو سرکاری پورٹل پر رجسٹر کرنا لازمی ہوگا
٢-بورڈز کے اختیارات میں کمی: وقف بورڈز کے فیصلہ سازی کے اختیارات محدود کیے گئے ہیں
٣-سرکاری نگرانی: وقف املاک پر سرکاری حکام کی نگرانی بڑھائی جائے گی
٤-تنازعات کا حل: وقف تنازعات کو حل کرنے کے لیے نئے ضوابط متعارف کیے گئے ہیں
وقف ترمیمی ایکٹ 2025: آئندہ کیا ہوگا؟
16 اپریل 2025 کو سپریم کورٹ کی سماعت اس معاملے میں اہم موڑ ثابت ہوگی۔ اگر عدالت نے **وقف ترمیمی ایکٹ 2025** کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا تو یہ حکومت کے لیے بڑا دھچکا ہوگا۔ دوسری طرف، اگر قانون کو برقرار رکھا گیا تو اس کے خلاف احتجاج مزید تیز ہو سکتے ہیں۔
مزید تفصیلات کے لیے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ(https://www.sci.gov.in) ملاحظہ کریں۔