Site icon Urdu India Today

CPEC کا افگاستان تک وستار: چین اور پاکستان کا نیا اسٹریٹجک پلان

چین اور پاکستان نے CPEC کا افگاستان تک وستار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ علاقائی استحکام اور ترقی کو فروغ دیا جائے۔ یہ اقدام افغانستان کو بھارت سے دور کرنے کی کوشش بھی ہے۔ جانیے اس فیصلے کے اثرات اور پس منظر۔

Table of Contents

CPEC کا افگاستان تک وستار
چین، پاکستان اور افغانستان کا سہ فریقی اجلاس
افغانستان کو بھارت سے دور کرنے کی حکمت عملی
CPEC اور بھارت کی تشویش
چین کا تالبان کے ساتھ تعلقات
علاقائی سیاست پر اثرات

CPEC کا افگاستان تک وستار

چین اور پاکستان نے اپنے مشترکہ منصوبے چین-پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کو افغانستان تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ بیجنگ میں ہونے والے ایک سہ فریقی اجلاس میں کیا گیا، جس میں پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چین کے وزیر خارجہ وانگ یی، اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ عامر خان متقی شریک تھے۔ اس فیصلے کا مقصد نہ صرف علاقائی روابط کو مضبوط کرنا ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانا اور اسے بھارت سے دور رکھنا بھی ہے۔ CPEC کا افگاستان تک وستار خطے کی سیاست اور معاشی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

CPEC کا افگاستان تک وستار: چین اور پاکستان کا نیا اسٹریٹجک پلان

یہ منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا اہم حصہ ہے، جس کا مقصد ایشیا، یورپ اور افریقہ کے درمیان تجارت اور روابط کو بڑھانا ہے۔ تاہم، اس فیصلے نے بھارت کی تشویش کو بڑھا دیا ہے کیونکہ CPEC کا ایک حصہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (PoK) سے گزرتا ہے، جسے بھارت اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔ اس مضمون میں ہم CPEC کے اس نئے مرحلے، اس کے پس منظر، اور خطے پر اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیں گے۔

چین، پاکستان اور افغانستان کا سہ فریقی اجلاس

بیجنگ میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے CPEC کو افغانستان تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ اس اجلاس میں علاقائی امن، استحکام، اور ترقی کے لیے تعاون کو مضبوط کرنے پر زور دیا گیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس موقع پر کہا کہ چین، پاکستان، اور افغانستان علاقائی ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اگلا سہ فریقی اجلاس کابل میں منعقد ہوگا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چین اور پاکستان اب افغانستان کو اپنی اسٹریٹجک شراکت داری میں مرکزی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اسحاق ڈار نے چین کو بھارت کے حالیہ آپریشن سندور کے بارے میں بھی آگاہ کیا، جس میں بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان اور PoK میں 9 دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا اور تقریباً 100 دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔

یہ اجلاس اس وقت ہوا جب افغانستان نے چابہار بندرگاہ میں دلچسپی ظاہر کی، جسے بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے۔ چین اور پاکستان کو خدشہ ہے کہ افغانستان کے بھارت کے ساتھ بڑھتے تعلقات CPEC کے مفادات کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے CPEC کا افگاستان تک وستار ایک اسٹریٹجک اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

افغانستان کو بھارت سے دور کرنے کی حکمت عملی

افغانستان نے تاریخی طور پر پاکستان کے ساتھ فاصلہ رکھا ہے، جبکہ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں۔ تالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ وہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکے گا، لیکن اسے اس معاملے میں مایوسی ہوئی۔ تالبان نے کئی مواقع پر پاکستان کے ساتھ تناؤ کا اظہار کیا، خاص طور پر دہشت گردی کے مسائل پر۔

دوسری طرف، بھارت نے افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں، جیسے کہ چابہار بندرگاہ، کے ذریعے اپنا اثر بڑھایا ہے۔ یہ بندرگاہ افغانستان کو بحیرہ عرب تک رسائی فراہم کرتی ہے اور اسے پاکستان پر انحصار کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ چین اور پاکستان اس صورتحال سے پریشان ہیں اور CPEC کے ذریعے افغانستان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ CPEC کا افگاستان تک وستار نہ صرف معاشی بلکہ جغرافیائی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بھی اہم ہے۔ اس سے نہ صرف افغانستان کو معاشی فوائد مل سکتے ہیں بلکہ یہ چین اور پاکستان کے لیے خطے میں بھارت کے بڑھتے اثر و رسوخ کو کم کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہوگا۔

CPEC اور بھارت کی تشویش

CPEC کا ایک حصہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر سے گزرتا ہے، جسے بھارت اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ CPEC کی اس وجہ سے مخالفت کی ہے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ PoK سے گزرنے والے منصوبے اس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں۔

بھارت نے 2022 میں کہا تھا کہ “CPEC کے نام نہاد منصوبوں میں تیسرے ممالک کی شمولیت کی حوصلہ افزائی سے متعلق رپورٹس دیکھی ہیں۔ اس طرح کے کسی بھی اقدام سے بھارت کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔”

اب جبکہ CPEC کو افغانستان تک بڑھایا جا رہا ہے، بھارت کی تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف معاشی بلکہ اسٹریٹجک طور پر بھی بھارت کے لیے چیلنج ہوگا، کیونکہ یہ خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش ہے۔

چین کا تالبان کے ساتھ تعلقات

چین تالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھا۔ جب سے تالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالا، چین نے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ تاہم، جب تالبان نے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی، تو چین نے فوری طور پر اپنی حکمت عملی کو تیز کیا۔

چین کے لیے افغانستان نہ صرف معاشی بلکہ جغرافیائی سیاسی اعتبار سے بھی اہم ہے۔ CPEC کا افگاستان تک وستار چین کے لیے وسطی ایشیا تک رسائی آسان بنائے گا اور اسے یورپی منڈیوں سے جوڑنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ، یہ چین کے لیے خطے میں مغربی اثر و رسوخ کو کم کرنے کا ایک موقع بھی ہے۔

علاقائی سیاست پر اثرات

CPEC کا افگاستان تک وستار خطے کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ ایک طرف، یہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے، جو حالیہ برسوں میں دہشت گردی اور سرحدی تنازعات کی وجہ سے خراب ہوئے ہیں۔ دوسری طرف، یہ بھارت کے لیے ایک اسٹریٹجک چیلنج ہوگا، جو خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مزید برآں، CPEC کے دوسرے مرحلے (CPEC 2.0) میں صنعتی ترقی، خصوصی اقتصادی زونز (SEZs)، صاف توانائی، زراعت، اور معاشرتی منصوبوں پر توجہ دی جائے گی۔ یہ منصوبے پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے معاشی فوائد لا سکتے ہیں، لیکن ان کی کامیابی کا انحصار سیکیورٹی کی صورتحال اور سیاسی استحکام پر ہوگا۔

CPEC کا افگاستان تک وستار چین اور پاکستان کی ایک اسٹریٹجک چال ہے، جس کا مقصد نہ صرف معاشی فوائد حاصل کرنا ہے بلکہ خطے میں بھارت کے بڑھتے اثر و رسوخ کو کم کرنا بھی ہے۔ یہ فیصلہ علاقائی سیاست کو نئی شکل دے سکتا ہے اور پاکستان، چین، اور افغانستان کے تعلقات کو مضبوط کر سکتا ہے۔ تاہم، بھارت کی تشویش اور سیکیورٹی چیلنجز اس منصوبے کی کامیابی کے لیے بڑے مسائل بن سکتے ہیں۔

Read More 

Exit mobile version