Site icon Urdu India Today

ایران کا امریکی ایئر بیس پر حملہ 2025: جنگ بندی یا فکسڈ میچ کیا ہے اس کی حقیقت؟

ایران کا امریکی ایئر بیس پر حملہ 2025:  اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان۔ کیا یہ ایران کی طاقت یا ٹرمپ کا خوف ہے؟ مکمل تفصیلات اور تازہ ترین اپ ڈیٹس جانیں۔

ایران کا امریکی ایئر بیس پر حملہ: کیا ہوا؟

ایران نے قطر میں واقع امریکی العدید ایئر بیس پر میزائل حملہ کیا، جو کہ مبینہ طور پر امریکہ کے ایران کے تین جوہری تنصیبات پر حملوں کا جواب تھا۔ ان حملوں سے ایران کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، لیکن ایران نے اپنی عوام کو پیغام دینے کے لیے یہ جوابی کارروائی کی۔ تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قطر کے آسمان پر ایرانی میزائل چمک رہے تھے، جو العدید ایئر بیس کو نشانہ بنانے کے لیے داغے گئے۔

ایران کا امریکی ایئر بیس پر حملہ 2025: جنگ بندی یا فکسڈ میچ کیا ہے اس کی حقیقت؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے کے فوراً بعد جنگ بندی کا اعلان کر دیا، دعویٰ کیا کہ ایران نے حملے سے پہلے امریکہ کو خبردار کیا تھا، جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حملہ واقعی ایک طاقتور جوابی کارروائی تھی یا محض ایک “فکسڈ میچ”؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کا اعلان: حقیقت یا ڈرامہ؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ ان کے بقول، “6 گھنٹوں میں دونوں ممالک اپنے آخری مشن مکمل کر لیں گے، جس کے بعد 12 گھنٹوں کی جنگ بندی شروع ہو گی۔ 24ویں گھنٹے پر یہ 12 روزہ جنگ سرکاری طور پر ختم ہو جائے گی۔”

ٹرمپ نے ایران کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے حملے سے پہلے خبردار کیا، جس سے امریکی فوجیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جا سکا۔ لیکن ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واضح کیا کہ “جنگ بندی پر کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔ اگر اسرائیل صبح 4 بجے تک اپنی غیر قانونی کارروائیاں روک دیتا ہے، تو تہران بھی حملے روک دے گا۔”

یہ بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا اعلان شاید یکطرفہ ہے اور ایران ابھی بھی اسرائیل کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر کا بیان: ہم کبھی نہیں جھکیں گے

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا، “جو لوگ ایرانی عوام اور ان کی تاریخ کو جانتے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایران کبھی جھکنے والا ملک نہیں ہے۔” ان کا یہ بیان ایران کی مضبوط عسکری پوزیشن اور خودمختاری کو ظاہر کرتا ہے۔ ایرانی فوج نے العدید ایئر بیس پر حملے کو “کامیاب آپریشن” قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اس حملے میں اتنی ہی میزائلیں استعمال کی گئیں جتنی امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کے لیے استعمال کی تھیں۔

ایران نے واضح کیا کہ یہ حملہ قطر کے رہائشی علاقوں سے دور تھا اور اس سے قطر کے شہریوں یا اس کے “برادرانہ تعلقات” کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

قطر کا کردار اور العدید ایئر بیس کی اہمیت

العدید ایئر بیس قطر کی راجدھانی دوحہ کے قریب واقع ہے اور یہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سینٹرل کمانڈ کا اہم آپریشنل مرکز ہے۔ اس بیس پر تقریباً 8,000 امریکی فوجی تعینات ہیں، اور یہ عراق اور افغانستان میں امریکی فوجی مہمات کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایئر بیس خلیجی خطے کی سب سے طویل ایئر لینڈنگ سٹرپ کا حامل ہے اور برطانوی فوجیوں کے رotation کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

قطر اور ایران کے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے یہ حملہ ایک “پیغام” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایران نے حملے سے پہلے قطر کو مطلع کیا تھا، اور قطر نے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھی۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، “قطر کو اس لیے چنا گیا کیونکہ اس کے ایران کے ساتھ قریبی سفارتی تعلقات ہیں، اور یہ حملہ نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش تھی۔”

امریکی ایئر بیس پر حملے کی حقیقت: فکسڈ میچ؟

کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ العدید ایئر بیس پر حملہ ایک “فکسڈ میچ” تھا۔ ایران نے اس حملے سے پہلے امریکہ اور قطر کو خبردار کیا تھا، جس کی وجہ سے امریکی فوجیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر لیا گیا۔ حملے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، اور ٹرمپ نے خود اسے “معمولی نقصان” قرار دیا۔

ایران نے قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “جس نے تم پر حملہ کیا، تم بھی اسی طرح اس پر حملہ کرو۔” یہ حملہ ایران کی عوام کو یہ پیغام دینے کے لیے تھا کہ وہ امریکی حملوں کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایران اور اسرائیل: جنگ بندی کی شرائط

ایران نے واضح کیا کہ وہ جنگ بندی پر اس وقت تک یقین نہیں کرے گا جب تک اسرائیل اپنی جارحیت بند نہیں کرتا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا، “ہم اسرائیل کے اقدامات دیکھیں گے۔ اگر وہ باز آتا ہے، تو ہم بھی جنگ بندی کریں گے۔”

دوسری جانب، اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے دعویٰ کیا کہ ایران نے گزشتہ ایک گھنٹے میں تین بار میزائل حملے کیے، جس سے عام شہریوں کو پناہ گاہوں کی طرف بھاگنا پڑا۔ اسرائیل نے ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا، لیکن ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ (جو بعد میں ہٹائی گئی) کے مطابق، اسرائیل اپنے انٹرسیپٹرز اور میزائلوں کی کمی کی وجہ سے جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف ہے۔

عراق میں امام علی ایئر بیس پر حملہ: کیا ہے سچ؟

ایک ایکس اکاؤنٹ “او سینٹ ڈیفنڈر” نے دعویٰ کیا کہ عراق کے جنوبی گورنریٹ ذی قار میں واقع امام علی ایئر بیس پر ڈرون حملہ ہوا۔ یہ بیس امریکی فوجیوں کے لیے اہم ہے، لیکن ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ گراک سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ “ابھی تک نہ تو امریکہ، نہ عراق، اور نہ ہی ایران نے اس حملے کی تصدیق کی ہے۔”

یہ حملہ اگر سچ ہے تو یہ اس رات کا چوتھا امریکی یا عراقی بیس پر حملہ ہوگا۔ تاہم، کچھ ویڈیوز جو اس حملے سے منسلک کی جا رہی ہیں، ممکنہ طور پر 2020 کے حملوں سے متعلق ہیں۔ اس لیے اس کی صداقت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

جوابات اور تجزیہ: کیا ایران کی طاقت کمزور ہو رہی ہے؟

سابق سی آئی اے ڈائریکٹر لیون پینٹا نے کہا کہ ایران کی “نرم ردعمل” اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کی جوابی کارروائی کی صلاحیت کمزور ہو چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران شاید اب اس جنگ کو مزید بڑھانا نہیں چاہتا، چاہے وہ اسرائیل کے ساتھ ہو یا امریکہ کے ساتھ۔

تاہم، ایران کا موقف واضح ہے کہ وہ اسرائیل کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایرانی حملوں نے اسرائیل کے کئی شہروں کو نقصان پہنچایا، اور اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم کے کمزور ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ایران کا امریکی ایئر بیس پر حملہ ایک اسٹریٹجک پیغام تھا، جو اپنی عوام اور عالمی برادری کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے کیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی اعلان شاید خوف یا سفارتی دباؤ کا نتیجہ ہو، لیکن ایران نے واضح کیا کہ وہ اسرائیل کے اقدامات پر نظر رکھے گا۔ العدید ایئر بیس پر حملہ اور امام علی بیس پر مبینہ حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔

Read More 

Exit mobile version