روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے یوکرین جنگ کے دوران ایسٹر 2025 کے موقع پر ایک روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا۔ روسی صدر پوتن کا یوکرین جنگ پر بڑا فیصلہ، یوکرین پر الزامات اور امن کی کوششوں کی مکمل تفصیلات جانیں۔
Table of Contents
روسی صدر پوتن کا یوکرین جنگ پر بڑا فیصلہ، ایسٹر کے موقع پر عارضی جنگ بندی کا اعلان
روس کی یکطرفہ جنگ بندی کی تفصیلات
پوتین کے یوکرین پر الزامات
یوکرین سے پوتین کی توقعات
کُرسک علاقے میں روس کی پیش قدمی
ماضی کی جنگ بندی کی کوششیں
عالمی ردعمل اور امن مذاکرات
پوتین کا یوکرین میں ایسٹر جنگ بندی کی اہمیت
روسی صدر پوتن کا یوکرین جنگ پر بڑا فیصلہ، ایسٹر کے موقع پر عارضی جنگ بندی کا اعلان

روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے یوکرین کے ساتھ تین سال سے جاری جنگ کے دوران ایک اہم اعلان کرتے ہوئے ایسٹر 2025 کے موقع پر ایک روزہ جنگ بندی کا فیصلہ کیا۔ یہ جنگ بندی مقامی وقت کے مطابق ہفتہ (19 اپریل 2025) کی شام 6 بجے سے شروع ہو کر اتوار کی رات 12 بجے تک نافذ رہے گی۔ پوتین کا یوکرین میں ایسٹر جنگ بندی کا یہ اعلان عالمی سطح پر توجہ حاصل کر رہا ہے، کیونکہ ماضی میں جنگ بندی کی کوششیں عدم اعتماد کی وجہ سے ناکام رہی ہیں
پوتین نے کہا کہ یہ فیصلہ انسانی ہمدردی کے جذبے سے کیا گیا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ یوکرین بھی اس اقدام کا احترام کرے گا۔ تاہم، انہوں نے اپنی فوج کو یوکرین کی طرف سے کسی بھی ممکنہ حملے یا اشتعال انگیزی کے لیے تیار رہنے کی ہدایت بھی دی۔
روس کی یکطرفہ جنگ بندی کی تفصیلات
روس نے اس جنگ بندی کو یکطرفہ طور پر نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پوتین نے اپنے فوجی سربراہ والری گیراسیموف کو ہدایت دی کہ وہ تمام فوجی کارروائیاں روک دیں اور یوکرین کی طرف سے کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی سے نمٹنے کے لیے چوکس رہیں۔ کریملن نے ایک بیان میں کہا:
“انسانی ہمدردی کے جذبے سے متاثر ہو کر، روس اتوار سے پیر تک ایسٹر جنگ بندی کا اعلان کرتا ہے۔ میں حکم دیتا ہوں کہ اس مدت کے دوران تمام فوجی کارروائیاں روک دی جائیں۔”
روس نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ توقع کرتا ہے کہ یوکرین اس جنگ بندی کی پاسداری کرے گا۔ تاہم، یوکرین نے ابھی تک اس اعلان پر کوئی سرکاری ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ پوتین نے اپنی فوج کو ہدایت دی کہ وہ یوکرین کی طرف سے کسی بھی حملے کے جواب کے لیے تیار رہیں، جس سے جنگ بندی کی کامیابی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
پوتین کے یوکرین پر الزامات
پوتین نے جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ یوکرین پر سنگین الزامات بھی عائد کیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یوکرین نے توانائی کے ڈھانچے پر حملوں سے متعلق معاہدے کی 100 سے زائد بار خلاف ورزی کی ہے۔ پوتین نے کہا کہ ان کے فوجی سربراہ گیراسیموف نے انہیں اس بارے میں آگاہ کیا۔
اس سے قبل جمعہ کو روس نے یوکرین کے توانائی کے مراکز پر حملوں پر عائد پابندی کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پوتین کے جنگ بندی کے اعلان کو “انسانی زندگیوں کے ساتھ کھیل” قرار دیا اور کہا کہ یوکرین میں فضائی حملوں کے انتباہ جاری ہیں۔
یوکرین سے پوتین کی توقعات
پوتین نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ جنگ بندی یوکرین کی “ایمانداری” کو جانچنے کا موقع فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا:
“یہ جنگ بندی تجویز ظاہر کرے گی کہ یوکرین امن مع PlayStation پر امن معاہدوں کی پاسداری اور امن مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے کتنا سنجیدہ ہے۔”
پوتین نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکہ، چین، اور برکس ممالک کی طرف سے جنگ کے پرامن حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے اپنی شرائط کو دہرایا کہ یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کی خواہش ترک کرنی ہوگی اور چار یوکرینی علاقوں سے فوجی انخلا کرنا ہوگا۔ یوکرین نے ان شرائط کو مسترد کرتے ہوئے انہیں “ہتھیار ڈالنے” کے مترادف قرار دیا ہے۔
کُرسک علاقے میں روس کی پیش قدمی
جنگ بندی کے اعلان سے چند گھنٹے قبل، روس کے وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ اس نے یوکرین کی سرحد پر واقع کُرسک علاقے کے گاؤں اویلشنیا پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ روس کے مطابق، اس علاقے میں یوکرین کی فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا۔
روس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے کُرسک کے 99 فیصد سے زائد علاقے کو یوکرین کی فوج سے آزاد کرا لیا ہے، جو گزشتہ سال اگست میں اس علاقے میں داخل ہوئی تھی۔ تاہم، یوکرین نے اس دعوے کی فوری طور پر تصدیق نہیں کی۔
ماضی کی جنگ بندی کی کوششیں
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ روس نے یوکرین جنگ کے دوران جنگ بندی کا اعلان کیا ہو۔ اس سے قبل اپریل 2022 میں ایسٹر اور جنوری 2023 میں آرتھوڈوکس کرسمس کے موقع پر بھی جنگ بندی کی کوششیں کی گئی تھیں، لیکن دونوں فریقین کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ سے یہ ناکام رہیں۔
2022 میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے ایسٹر کے موقع پر جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی، جس کا مقصد انسانی ہمدردی کے راستوں کو کھولنا اور شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا تھا۔ تاہم، اس تجویز پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
عالمی ردعمل اور امن مذاکرات
پوتین کا یوکرین میں ایسٹر جنگ بندی کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے امن مذاکرات کو تیز کرنے کی کوششوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا تھا کہ اگر دونوں فریقین امن مذاکرات میں تعاون نہ کریں تو امریکہ ان کوششوں سے دستبردار ہو سکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ اگلے چند ہفتوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ آیا پوتین امن کے لیے سنجیدہ ہیں۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے بھی روس پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، کیونکہ ان کے مطابق روس امن کے بجائے وقت ضائع کر رہا ہے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے پوتین کے جنگ بندی کے اعلان پر شکوک کا اظہار کیا اور کہا کہ روس کے ڈرون حملوں سے پوتین کی نیت واضح ہوتی ہے۔
پوتین کا یوکرین میں ایسٹر جنگ بندی کی اہمیت
پوتین کا یوکرین میں ایسٹر جنگ بندی کا اعلان ایک عارضی اقدام ہے جو جنگ کے طویل مدتی حل کی بجائے انسانی ہمدردی کے جذبے سے کیا گیا ہے۔ تاہم، دونوں فریقین کے درمیان عدم اعتماد اور مسلسل الزامات اس جنگ بندی کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔
یہ جنگ بندی نہ صرف یوکرین اور روس کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو جانچنے کا موقع فراہم کرے گی بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک امتحان ہوگا کہ وہ اس موقع سے جنگ کو ختم کرنے کے لیے کس طرح کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگرچہ یہ جنگ بندی مختصر مدت کے لیے ہے، لیکن اس سے امن مذاکرات کے امکانات کو تقویت مل سکتی ہے، بشرطیکہ دونوں فریقین اس کی پاسداری کریں۔
The website design looks great—clean, user-friendly, and visually appealing! It definitely has the potential to attract more visitors. Maybe adding even more engaging content (like interactive posts, videos, or expert insights) could take it to the next level. Keep up the good work! Given the growing economic instability due to the events in the Middle East, many businesses are looking for guaranteed fast and secure payment solutions. Recently, I came across LiberSave (LS) — they promise instant bank transfers with no chargebacks or card verification. It says integration takes 5 minutes and is already being tested in Israel and the UAE. Has anyone actually checked how this works in crisis conditions?