روس-یوکرین جنگ کے 1,174ویں دن کے اہم واقعات جانیں۔ جنگ بندی کی تجاویز، زیلنسکی اور پوتن کی ممکنہ ملاقات، اور تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں مکمل تفصیلات۔
Table of contents
جنگ بندی کی تجویز اور استنبول مذاکرات
امریکی صدر ٹرمپ کی ممکنہ شمولیت
یوکرین اور روس کے محاذ پر صورتحال
یورپی ممالک کی پابندیوں کی دھمکی
روس-یوکرین جنگ کی تاریخی پس منظر
جنگ کے عالمی اثرات
مستقبل کی توقعات
جنگ بندی کی تجویز اور استنبول مذاکرات
روس-یوکرین جنگ کے 1,174ویں دن، یعنی 13 مئی 2025 کو، عالمی توجہ ایک ممکنہ جنگ بندی کی تجویز پر مرکوز ہے۔ یوکرین کے صدر وولوڈیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے جمعرات کو استنبول میں براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ یہ تجویز یورپی رہنماؤں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت سے پیش کی گئی ہے، جو 30 دن کی غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، ماسکو نے ابھی تک اس تجویز پر کوئی واضح ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ زیلنسکی نے اپنے رات کے خطاب میں کہا، “ماسکو کی طرف سے ایک عجیب خاموشی ہے، جبکہ گولہ باری اور حملے جاری ہیں۔”
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوتن اور زیلنسکی کی آخری ملاقات دسمبر 2019 میں ہوئی تھی، اور اس ممکنہ ملاقات کو جنگ کے خاتمے کی طرف ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔ اگر پوتن اس ملاقات میں شرکت سے انکار کرتے ہیں یا جنگ بندی سے اتفاق نہیں کرتے، تو یورپی ممالک نے ماسکو پر نئی پابندیوں کے نفاذ کی دھمکی دی ہے۔ بلومبرگ کے مطابق، یورپ وائٹ ہاؤس پر زور دے رہا ہے کہ وہ روس کے خلاف سخت اقدامات کرے اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں۔
روس-یوکرین جنگ: ٹرمپ کی شمولیت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس صورتحال میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ استنبول میں زیلنسکی اور پوتن کے ممکنہ مذاکرات میں شرکت کے لیے “اڑان بھرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔” ٹرمپ نے مزید کہا، “اگر مجھے لگا کہ معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں، تو میں وہاں ضرور جاؤں گا۔”
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پیر کو یوکرائنی اور یورپی عہدیداروں کے ساتھ ایک مشترکہ کال میں جنگ بندی کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس تنازع کے حل کے لیے فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، خاص طور پر یوکرین کے معدنی ذخائر تک رسائی کے معاہدوں کے تناظر میں، جو حال ہی میں امریکہ اور یوکرین کے درمیان طے پائے ہیں۔
روس-یوکرین جنگ:محاذ پر صورتحال
یوکرین کی فوج نے رپورٹ کیا کہ پیر کی رات تک محاذ پر روس کے ساتھ 133 جھڑپیں ہوئیں۔ سب سے شدید لڑائی ڈونیٹسک کے علاقے اور روس کے مغربی کرسک خطے میں جاری ہے۔ یوکرین کی فوج کے مطابق، جنگ بندی کی تجویز کے باوجود لڑائی کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ زیلنسکی نے اپنے خطاب میں کہا کہ “روسی گولہ باری اور حملے جاری ہیں، جو ماسکو کے ارادوں پر سوالات اٹھاتے ہیں۔”
روس نے 30 دن کی جنگ بندی کو یورپ کی طرف سے ایک “حربہ” قرار دیا، جس کا مقصد یوکرین کو اپنی فوجی صلاحیتوں کو بحال کرنے کا موقع دینا ہے۔ کریملن کے مطابق، یہ تجویز روس کے مفادات کے خلاف ہے اور اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
روس-یوکرین جنگ: یورپی پابندیاں
جرمنی سمیت یورپی ممالک نے واضح کیا کہ اگر استنبول مذاکرات ناکام ہوتے ہیں یا پوتن جنگ بندی سے انکار کرتے ہیں، تو وہ روس پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ پابندیاں روس کی جنگی مشین کو مالی اور تکنیکی طور پر کمزور کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔
امریکہ نے بھی پہلے ہی روس کے خلاف متعدد پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں تقریباً 400 اداروں اور افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے جو روس کی یوکرین کے خلاف جنگ میں سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد روس کی فوجی صنعت کے لیے کلیدی سازوسامان کی سپلائی کو روکنا اور اس کی جنگی صلاحیت کو محدود کرنا ہے۔
روس-یوکرین جنگ کی تاریخی پس منظر
روس-یوکرین جنگ کی جڑیں 2014 میں شروع ہونے والے تنازع سے ملتی ہیں، جب روس نے یوکرین کے علاقے کریمیا پر قبضہ کر لیا اور مشرقی یوکرین کے ڈونباس خطے میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کی۔ فروری 2022 میں، روس نے یوکرین پر مکمل پیمانے پر حملہ کیا، جسے صدر پوتن نے “خصوصی فوجی آپریشن” کا نام دیا۔ اس جنگ نے یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا تنازع پیدا کیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں۔
یوکرین نے اس دوران مغربی ممالک کی حمایت سے اپنی فوجی صلاحیت کو مضبوط کیا ہے۔ امریکہ نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے علاوہ انٹیلی جنس اور دفاعی نظام فراہم کیے ہیں، جن میں ہیمارس راکٹ لانچرز اور S-300 اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم شامل ہیں۔
روس-یوکرین جنگ: اور عالمی اثرات
روس-یوکرین جنگ کے عالمی معیشت، توانائی، اور خوراک کی سپلائی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یوکرین کی گندم کی برآمدات میں رکاوٹ کی وجہ سے عالمی سطح پر غذائی عدم تحفظ بڑھا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، جنگ نے یوکرین میں 80 لاکھ سے زائد افراد کو بے گھر کیا اور یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا مہاجر بحران پیدا کیا۔
روس پر عائد پابندیوں نے عالمی توانائی کی منڈیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ روس کے تیل اور گیس کی برآمدات پر پابندیوں کے نتیجے میں یورپ میں توانائی کے نرخ بڑھے ہیں، جس نے معاشی دباؤ کو مزید بڑھایا۔
روس-یوکرین جنگ:مستقبل کی توقعات
روس-یوکرین جنگ کے 1,174ویں دن، عالمی برادری کی نظریں استنبول میں ممکنہ مذاکرات پر مرکوز ہیں۔ اگرچہ جنگ بندی کی تجویز نے امید کی ایک کرن پیدا کی ہے، لیکن ماسکو کی خاموشی اور محاذ پر جاری شدید لڑائی اس تنازع کے جلد حل ہونے کے امکانات کو کمزور کر رہی ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ کی طرف سے پابندیوں کی دھمکیوں سے یہ واضح ہے کہ روس پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
آئندہ چند دن اس جنگ کی سمت کا تعین کرنے میں اہم ثابت ہو سکتے