اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے غزہ جنگ کو ظالمانہ مرحلہ قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں کے قحط کے خطرے سے خبردار کیا۔ اسرائیل کی ناکہ بندی اور فوجی مہم نے انسانی بحران کو گہرا کر دیا۔ تفصیلات جانیں۔
Table of Contents
غزہ جنگ کا پس منظر
اقوام متحدہ کے چیف کا بیان
غزہ میں قحط کا خطرہ
اسرائیل کی ناکہ بندی اور امداد کی کمی
انسانی امداد کی ناکافی ترسیل
عالمی برادری کا کردار
مستقبل کے امکانات اور حل
غزہ جنگ کا پس منظر
غزہ جنگ، جو اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کے درمیان جاری تنازع کا حصہ ہے، دہائیوں سے مشرق وسطیٰ کے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد، جس میں 1,200 سے زائد افراد ہلاک اور 240 کے قریب یرغمال بنائے گئے، اسرائیل نے غزہ پر بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کی۔ اس کے نتیجے میں اب تک 53,822 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 122,382 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ کی 80 فیصد آبادی یا تو اسرائیلی فوجی زونز میں ہے یا انخلا کے احکامات کے تحت نقل مکانی پر مجبور ہے۔ اس صورتحال نے غزہ کی 22 لاکھ آبادی کو شدید انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے، جہاں خوراک، پانی، اور طبی امداد کی شدید کمی ہے۔
اقوام متحدہ کے چیف کا بیان
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے غزہ جنگ کو “ظالمانہ مرحلے” میں داخل ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی فوجی مہم اور طویل ناکہ بندی نے فلسطینیوں کو قحط کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ گٹیرس نے جمعہ کے روز اپنے بیان میں کہا:
“تقریباً 80 دن تک اسرائیل نے زندگی بچانے والی بین الاقوامی امداد کے داخلے کو روک دیا۔ غزہ کی پوری آبادی کو قحط کا خطرہ لاحق ہے۔”
گٹیرس نے امداد کی موجودہ ترسیل کو “ایک چائے کے چمچ” سے تشبیہ دی، جو غزہ کی آبادی کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو “موت اور تباہی کی ظالمانہ سطح” قرار دیا اور انسانی امداد کی رسائی کو خطرناک اور غیر معمولی حالات سے تعبیر کیا۔
غزہ میں قحط کا خطرہ
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔ عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے مطابق، غزہ میں تقریباً ہر شخص بھوک کا شکار ہے، اور اگر جنگ اسی طرح جاری رہی تو اگلے چند ماہ میں قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔
شمالی غزہ خاص طور پر بدترین حالات سے گزر رہا ہے، جہاں اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار نے مئی 2024 میں “مکمل قحط” کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔ غذائی تحفظ کے ماہرین نے خبردار کیا کہ غزہ کی نصف آبادی، یعنی تقریباً 11 لاکھ افراد، شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ قحط کے سرکاری اعلان کے لیے تین شرائط پوری ہونی چاہئیں:
کم از کم 20 فیصد گھرانوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہو۔
تقریباً 30 فیصد بچوں میں شدید غذائی قلت ہو۔
ہر 10,000 افراد میں روزانہ دو بالغ یا چار بچوں کی بھوک سے موت۔
فائر بندی کے دوران امداد کی ترسیل نے قحط کے خطرے کو عارضی طور پر کم کیا، لیکن اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے سربراہ ٹام فلیچر نے خبردار کیا کہ فائر بندی ختم ہونے کی صورت میں یہ خطرہ تیزی سے واپس آ سکتا ہے۔
اسرائیل کی ناکہ بندی اور امداد کی کمی
اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے، جس سے خوراک، پانی، ادویات، اور ایندھن کی شدید قلت پیدا ہوئی ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے کچھ امدادی ٹرکوں کو کریم شالوم کراسنگ کے ذریعے داخلے کی اجازت دی، لیکن اقوام متحدہ کے مطابق، یہ تعداد ناکافی ہے۔ گٹیرس نے بتایا کہ صرف ایک تہائی ٹرک ہی سیکیورٹی رکاوٹوں اور افراتفری کی وجہ سے گوداموں تک پہنچ پائے ہیں۔
اکتوبر 2023 سے قبل غزہ میں روزانہ 500 سے زائد امدادی ٹرک داخل ہوتے تھے، لیکن اب یہ تعداد کئی سو تک محدود ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے UNRWA نے خبردار کیا کہ ایندھن کی کمی کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں خطرے میں ہیں، جس سے پانی کی فراہمی، ہسپتالوں کی فعالیت، اور خوراک کی تقسیم متاثر ہو رہی ہے۔
انسانی امداد کی ناکافی ترسیل
غزہ میں امداد کی ترسیل کے لیے نجی ٹھیکیداروں پر مبنی ایک نئے امریکی منصوبے کی تجویز پیش کی گئی ہے، لیکن اقوام متحدہ نے اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا، کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون اور انسانی امداد کے اصولوں (غیر جانبداری، آزادی، اور شفافیت) کے مطابق نہیں ہے۔ گٹیرس نے کہا کہ اقوام متحدہ کے پاس پہلے سے ہی امداد کی تقسیم کے لیے انفراسٹرکچر موجود ہے، اور 160,000 پیلیٹس امداد، جو 9,000 ٹرکوں کے برابر ہے، غزہ کے باہر انتظار کر رہی ہے۔
ترجمان (UNRWA) لوسی ویٹریج نے بتایا کہ غزہ کے اندر گودام خالی ہیں، جبکہ اردن میں امدادی سامان کے ڈھیر موجود ہیں، جو دو لاکھ افراد کے لیے ایک ماہ کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ گٹیرس نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ “زندگی بچانے والی امداد” کو فوری طور پر غزہ تک پہنچانے کے لیے اقدامات کرے۔
عالمی برادری کا کردار
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ کے حوالے سے کئی قراردادوں پر بحث ہوئی، لیکن امریکہ نے دو بار جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کیا۔ جنرل اسمبلی نے دسمبر 2023 میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی، لیکن اس پر عملدرآمد لازمی نہیں ہے۔
15 جنوری 2025 کو اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا، جس کے تحت اسرائیل غزہ سے انخلا کرے گا اور امداد کی ترسیل بحال ہوگی۔ تاہم، اس معاہدے کے تسلسل پر خدشات موجود ہیں۔ عالمی اداروں، جیسے کہ یونیسف اور ورلڈ فوڈ پروگرام، نے غزہ میں بچوں اور خواتین کی بدتر ہوتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مستقبل کے امکانات اور حل
غزہ جنگ کے طویل مدتی حل کے لیے دو ریاستی حل پر زور دیا جا رہا ہے، جس میں فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا قیام اور مشرقی یروشلم کو اس کا دارالحکومت بنانا شامل ہے۔ گٹیرس نے بارہا زور دیا کہ فلسطینیوں کے حقوق اور اسرائیل کی ناکہ بندی کے خاتمے کے بغیر امن ممکن نہیں۔
عالمی برادری سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ امداد کی بلاروک ٹوک ترسیل کو یقینی بنائے اور جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالے۔ گٹیرس نے کہا:
> “تیز، قابل اعتماد، محفوظ، اور مستقل امداد تک رسائی کے بغیر، زیادہ سے زیادہ لوگ مر جائیں گے، اور پوری آبادی پر طویل مدتی نتائج گہرے ہوں گے۔”