لاس اینجلس میں ہنگامہ آرائی: غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں ہنگامہ آرائی جاری ہے۔ نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے باوجود تشدد جاری ہے۔ مکمل تفصیلات جانیں۔
لاس اینجلس میں ہنگامہ آرائی کیوں؟
لاس اینجلس، جو کہ امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، اس وقت شدید ہنگامہ آرائی اور تشدد کا شکار ہے۔ یہ ہنگامہ آرائی غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کے آپریشنز کے ردعمل میں شروع ہوئی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کا حکم دیا، لیکن اس فیصلے نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزم اور لاس اینجلس کے میئر کیرن باس نے اس تعیناتی کو غیر ضروری اور اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔ اس مضمون میں ہم لاس اینجلس ہنگامہ آرائی کی وجوہات، اس کے اثرات اور مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیں گے۔

غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن
امریکی امیگریشن حکام نے حال ہی میں لاس اینجلس میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔ جمعہ، 6 جون 2025 کو شروع ہونے والے ان آپریشنز کے دوران ICE نے شہر کے مختلف علاقوں، خاص طور پر لاطینی اکثریتی علاقوں جیسے کہ پیراماؤنٹ اور کمپٹن میں 118 افراد کو گرفتار کیا۔ ان گرفتاریوں میں دکانداروں، مزدوروں اور دیگر عام شہری شامل تھے، جنہیں وفاقی حکام نے غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا۔
ان آپریشنز کے نتیجے میں مقامی آبادی میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔ سماجی تنظیمیں اور مقامی رہائشیوں نے ان گرفتاریوں کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا۔ جمعہ کے روز لاس اینجلس کے ڈاون ٹاؤن میں واقع میٹروپولیٹن ڈیٹینشن سینٹر کے باہر سینکڑوں افراد جمع ہوئے اور ICE کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ احتجاج ابتدا میں پرامن تھا، لیکن جلد ہی حالات کشیدہ ہو گئے جب مظاہرین نے پولیس اور وفاقی ایجنٹس پر پتھراؤ اور دیگر اشیاء پھینکنا شروع کر دیا۔
لاس اینجلس میں ہنگامہ آرائی: نیشنل گارڈ کی تعیناتی اور تنازع
صدر ٹرمپ نے ہفتے کے روز 2,000 نیشنل گارڈز اہلکاروں کو لاس اینجلس بھیجنے کا اعلان کیا، جسے انہوں نے “قانون و امان بحال کرنے” کے لیے ضروری قرار دیا۔ تاہم، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزم نے اس فیصلے کو غیر قانونی اور ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل گارڈ کی تعیناتی شہر میں تناؤ کو مزید بڑھا رہی ہے اور یہ فیصلہ عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کیا گیا ہے۔
مزید برآں، امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے اعلان کیا کہ اگر تشدد جاری رہا تو کیمپ پینڈلٹن سے فعال ڈیوٹی میرینز کو بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔ اس بیان نے مقامی رہنماؤں اور شہریوں کے درمیان مزید تناؤ پیدا کر دیا۔ کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل روب بونٹا نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا، جس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
کیلیفورنیا کے گورنر اور میئر کا ردعمل
کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزم نے صدر ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے ذریعے “بحران کو ہوا دینے” کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک خط میں لکھا کہ نیشنل گارڈ کے 2,000 اہلکاروں میں سے صرف 300 کو فعال طور پر تعینات کیا گیا ہے، جبکہ باقی اہلکار وفاقی عمارتوں میں بغیر کسی واضح ہدایت کے موجود ہیں۔ انہوں نے اسے “ٹرمپ کے انا کی تسکین” کا عمل قرار دیا۔
لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے بھی اس تعیناتی کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ (LAPD) حالات کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل گارڈ کی موجودگی شہریوں میں خوف پیدا کر رہی ہے اور اس سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ میئر باس نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کی، لیکن ساتھ ہی واضح کیا کہ تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
لاس اینجلس میں ہنگامہ آرائی: تشدد کی موجودہ صورتحال
لاس اینجلس ہنگامہ آرائی تین دن سے جاری ہے، اور حالات ابھی تک کنٹرول میں نہیں آئے۔ اتوار کے روز مظاہرین نے ڈاون ٹاؤن میں واقع میٹروپولیٹن ڈیٹینشن سینٹر کے باہر بڑی تعداد میں جمع ہو کر احتجاج کیا۔ اس دوران کچھ مظاہرین نے پولیس گاڑیوں پر پتھراؤ کیا اور کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی، جن میں Waymo کی خودکار گاڑیاں بھی شامل تھیں۔
لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ نے متعدد مقامات پر غیر قانونی اجتماع کا اعلان کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر ہونے کا حکم دیا۔ پولیس نے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور فلیش بینگ گرنیڈز کا استعمال کیا۔ ہفتے اور اتوار کے دوران تقریباً 70 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن پر الزامات میں ناکامی سے لے کر مولوتوف کاک ٹیل پھینکنے اور لوٹ مار تک شامل ہیں۔
لاس اینجلس میں ہنگامہ آرائی: عوامی ردعمل اور سماجی تنظیمیں
لاس اینجلس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ لاطینی اور غیر ملکی نژاد افراد پر مشتمل ہے۔ ان آپریشنز نے مقامی کمیونٹی میں خوف اور غصے کو جنم دیا ہے۔ متعدد سماجی تنظیمیں، جیسے کہ The Coalition for Humane Immigration Rights of Los Angeles (CHIRLA)، نے ان گرفتاریوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ایک مقامی رہنما ایلی لاک ووڈ نے کہا کہ “ہماری کمیونٹی پر حملہ ہم سب پر حملہ ہے۔”

سابق نائب صدر کمالہ ہیرس، جو لاس اینجلس کی رہائشی ہیں، نے بھی ان آپریشنز اور نیشنل گارڈ کی تعیناتی کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات “ظالمانہ اور منصوبہ بند ایجنڈے” کا حصہ ہیں جو شہریوں میں خوف پھیلانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
تاریخی تناظر: ماضی کے ہنگاموں سے موازنہ
لاس اینجلس ہنگامہ آرائی کو ماضی کے بڑے ہنگاموں، جیسے کہ 1965 کے واٹس ہنگاموں اور 1992 کے رہوڈنی کنگ ہنگاموں سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ہنگامے ان تاریخی واقعات کے مقابلے میں محدود پیمانے پر ہیں۔ 1992 میں ہونے والے ہنگاموں میں ہزاروں فوجیوں اور میرینز کو تعینات کیا گیا تھا، اور پورے شہر میں وسیع پیمانے پر لوٹ مار اور تباہی دیکھی گئی تھی۔
موجودہ ہنگاموں میں مظاہرین کا غصہ زیادہ تر ICE ایجنٹس کے خلاف ہے، اور املاک کو نقصان محدود علاقوں تک ہے۔ تاہم، نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو ماہرین غیر ضروری اور اشتعال انگیز قرار دے رہے ہیں۔
لاس اینجلس میں ہنگامہ آرائی: آئندہ کیا ہوگا؟
لاس اینجلس ہنگامہ آرائی کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ وہ امیگریشن پالیسی پر سختی سے عمل کریں گے، اور ICE آپریشنز جاری رہیں گے۔ دوسری جانب، کیلیفورنیا کی مقامی قیادت اس تعیناتی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہی ہے۔
امریکی کانگریس کی رکن نینٹ باراگان نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ جان بوجھ کر تناؤ کو بڑھا رہی ہے تاکہ وہ اپنی پالیسیوں کو جائز قرار دے سکے۔ اس دوران، شہریوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ پرامن رہیں اور تشدد سے گریز کریں۔
لاس اینجلس ہنگامہ آرائی نے ایک بار پھر امیگریشن پالیسی کے حوالے سے امریکی معاشرے میں موجود گہرے تقسیم کو اجاگر کیا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشنز اور نیشنل گارڈ کی تعیناتی نے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ جبکہ وفاقی حکام ان اقدامات کو قانون و امان کی بحالی کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں، مقامی قیادت اور شہری اسے ظالمانہ اور غیر ضروری سمجھتے ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف لاس اینجلس بلکہ پورے امریکہ کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ کیا یہ تناؤ کم ہوگا، یا یہ ایک بڑے قومی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے؟ یہ سوال وقت ہی بتائے گا۔