مڈل کلاس قرضوں کے جال میں: ایک بڑھتا ہوا بحران (Middle Class Debt Trap )
ہندوستان کا مڈل کلاس، جو کبھی معاشی ترقی کا ستون سمجھا جاتا تھا، آج قرضوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے۔ کریڈٹ کارڈ کے قرضوں سے لے کر گولڈ لون تک، عام آدمی اپنی زندگی کو چلانے کے لیے قرضوں پر انحصار کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ قرضے اسے سہارا دے رہے ہیں یا اسے غرق کر رہے ہیں؟ رپورٹس کے مطابق، 2024 میں کریڈٹ کارڈ کے ڈیفالٹرز کی تعداد میں 28 فیصد اضافہ ہوا، اور 6742 کروڑ روپے کے قرضے واپس نہ کیے جا سکے۔ یہ مڈل کلاس قرض کا بحران صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ لاکھوں خاندانوں کی کہانی ہے۔
اس مضمون میں ہم اس بحران کے اسباب، اس کے اثرات، اور ممکنہ حل پر بات کریں گے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ بینکوں کے ریکوری ایجنٹس کس طرح مڈل کلاس کی زندگی کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔
مڈل کلاس قرضوں میں کیوں ڈوب رہا ہے؟ (Why Middle Class Debt?)
مڈل کلاس قرضوں میں کیوں پھنس رہا ہے؟ اس کے کئی اسباب ہیں:
تنخواہوں کا جمود: گزشتہ دس سالوں سے تنخواہوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ ہندو بزنس لائن کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2013-14 میں ایک فریشر انجینئر کو 3 سے 3.5 لاکھ روپے سالانہ پیکیج ملتا تھا، جو 2023-24 میں بمشکل 3.8 سے 4.5 لاکھ تک پہنچا ہے۔ یعنی ماہانہ 40,000 روپے سے بھی کم۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی: اسکول کی فیس، علاج کے اخراجات، اور روزمرہ کی ضروریات کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ مڈل کلاس کی آمدنی ان اخراجات سے مطابقت نہیں رکھتی۔
کریڈٹ کارڈ کا آسان حصول: بینک کریڈٹ کارڈ دینے کے لیے مسلسل فون کرتے ہیں، لیکن جب واپسی کا وقت آتا ہے تو باؤنسرز اور ریکوری ایجنٹس گھر کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔
سماجی دباؤ: دکھاوے کی دوڑ میں مڈل کلاس مہنگی گاڑیاں، گھریلو اشیا، اور شادیوں پر قرض لے رہا ہے۔
فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، گھریلو قرضوں کا تناسب جی ڈی پی کے 43 فیصد تک پہنچ گیا ہے، جو 2020 میں 35 فیصد تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مڈل کلاس قرض نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ معاشی ترقی کی کہانی کو بھی چیلنج کر رہا ہے۔
ریکوری ایجنٹس کا کردار (Recovery Agents )
بینکوں نے قرضوں کی وصولی کے لیے ریکوری ایجنٹس کو ملازمت دینا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایجنٹس گھر گھر جا کر قرضوں کی وصولی کرتے ہیں، اور ان کی تنخواہ 9,000 سے 20,000 روپے تک ہوتی ہے، جس میں وصولی کے حساب سے کمیشن بھی شامل ہوتا ہے۔ کچھ اشتہارات میں تو لکھا ہوتا ہے کہ “قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا”۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ ایجنٹس قانون سے باہر کام کرتے ہیں؟
پٹنہ ہائی کورٹ نے 2023 میں کہا تھا کہ باؤنسرز کے ذریعے گاڑیاں چھیننا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آر بی آئی کی گائیڈلائنز بھی اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ پھر بھی، دہلی سے لے کر تمل ناڈو تک، ریکوری ایجنٹس کی نوکریوں کے اشتہارات عام ہیں۔ یہ مڈل کلاس قرض کے بحران کو اور گہرا کر رہے ہیں، کیونکہ لوگ وصولی کے خوف سے چھپنے پر مجبور ہیں۔
کریڈٹ کارڈ ڈیفالٹس اور بڑھتا ہوا این پی اے (Credit Card Defaults )
2024 میں کریڈٹ کارڈ کے نان پرفارمنگ ایسیٹس (این پی اے) میں 28 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، دسمبر 2020 میں کریڈٹ کارڈ کا این پی اے 118 کروڑ روپے تھا، جو 2024 تک بڑھ کر 6742 کروڑ روپے ہو گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ لاکھوں لوگ کریڈٹ کارڈ کے قرضے واپس نہیں کر پا رہے۔
مارچ 2021 میں کریڈٹ کارڈ سے 6300 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے، جو مارچ 2024 تک بڑھ کر 18,31,000 کروڑ روپے ہو گئے۔ یہ اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ مڈل کلاس کریڈٹ کارڈ پر انحصار کر رہا ہے، لیکن واپسی کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ **مڈل کلاس قرض** کا یہ بحران معاشی پالیسیوں پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔
گولڈ لون: آخری سہارا (Gold Loans )
جب کریڈٹ کارڈ اور ذاتی قرضوں سے بات نہیں بنتی، تو مڈل کلاس اپنا سونا گروی رکھ کر لون لے رہا ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2023 سے 2024 کے درمیان گولڈ لون کے پورٹ فولیو میں 71 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسی دوران سونے کی قیمتیں بھی 21 فیصد بڑھیں، لیکن گولڈ لون کی مانگ میں 68 فیصد کا اضافہ ہوا۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مڈل کلاس کے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ مڈل کلاس قرض کا یہ رجحان نہ صرف ان کی معاشی حالت کو عیاں کرتا ہے بلکہ معاشرتی دباؤ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
آمدنی کا جمود: معاشی حقیقت (Stagnant Incomes )
ہندوستان کی معاشی ترقی کی کہانی صرف چند امیروں تک محدود ہے۔ ورلڈ ان ایکوالٹی ڈیٹابیس کے مطابق، 80 فیصد ہندوستانیوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی صرف 10 فیصد امیروں کے پاس ہے۔ اوسط ماہانہ آمدنی 15,000 روپے سے بھی کم ہے۔
بہار جیسے بڑے صوبے میں، 34 فیصد لوگ 6,000 روپے سے کم اور 30 فیصد لوگ 10,000 روپے سے کم کماتے ہیں۔ یہ حالات **مڈل کلاس قرض** کے بحران کو اور گہرا کر رہے ہیں، کیونکہ لوگوں کی آمدنی نہ تو مہنگائی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور نہ ہی ان کے اخراجات کو پورا کر پا رہی ہے۔
مڈل کلاس کیا کرے؟ (Solutions )
مڈل کلاس قرض کے اس بحران سے کیسے نکل سکتا ہے؟ کچھ تجاویز:
بجٹ بنائیں: اپنی آمدنی اور اخراجات کا حساب رکھیں۔ غیر ضروری اخراجات کم کریں۔
کریڈٹ کارڈ کا محدود استعمال: کریڈٹ کارڈ کو ہنگامی حالات کے لیے رکھیں، نہ کہ روزمرہ کے خرچ کے لیے۔
اضافی آمدنی کے ذرائع: فری لانسنگ یا پارٹ ٹائم کام کے ذریعے آمدنی بڑھانے کی کوشش کریں۔
مالی مشاورت: قرضوں سے نکلنے کے لیے کریڈٹ ریزولوشن کمپنیوں سے رابطہ کریں، جیسے کہ فریڈ، جو قرضوں کے انتظام میں مدد دیتی ہیں۔
بیداری کی ضرورت(Conclusion )
ہندوستان کا مڈل کلاس آج قرضوں کے دلدل میں پھنس چکا ہے۔ مڈل کلاس قرض کا یہ بحران صرف معاشی نہیں، بلکہ سماجی اور نفسیاتی بھی ہے۔ بینکوں کے ریکوری ایجنٹس سے لے کر بڑھتی ہوئی مہنگائی تک، ہر چیز مڈل کلاس کی زندگی کو مشکل بنا رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بحران پر کھل کر بات کریں اور اس سے نکلنے کے راستے تلاش کریں۔
کیا آپ بھی اس قرض کے بوجھ تلے دب رہے ہیں؟ اپنی کہانی ہمارے ساتھ شیئر کریں اور آئیے مل کر اس بحران کا حل تلاش کریں۔
External Links:
[Financial Times Report on Middle Class Debt]
[RBI Guidelines on Recovery Agents]
Internal Links:
[Understanding Personal Finance]
[How to Manage Credit Card Debt]